سلطان الفقراءفقیر نور محمد سروری قادری

منیر احمد سروری قادری
خطہ بر صغیر میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے حوالے سے صوفیاءاولیاءکا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے اور تا قیامت د نمایاں رہے گا ۔فیوضات و برکات کے نہ رکنے والے اس سلسلے میںسلطان الفقراءصاحب عرفان حضرت فقیر نور محمد سروری قادری ؒ وہ ہستی ہیں جن کا کردار تبلیغ اسلام ،تصوف اور روحانیت کے حوالے سے اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔آپ صاحب تصنیف و تالیف عارف باللہ بزرگ ہو گزرے ہیں آپ کی ولادت با سعادت بروزمنگل1883 ءمیں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک غیر معروف اور دور افتادہ مقام تحصیل کُلاچی ڈیرہ اسمعیل خان میں اپنے وقت کے ولی کامل اور متقی عالم دین حاجی گُل محمد کے گھرانے میں ہوئی ۔آپ کا سلسلہ نسب نجیب الطرفین بزرگ میر سید محمد گیسو دراز سے ہوتا ہوا مولائے کائناتؓسے جا ملتا ہے ۔جبکہ روحانی اور باطنی حوالے سے سلسلہ طریقت میں آپ حضرت سلطان باھوسے لازوال اور ابدی نسبت رکھتے تھے ۔آپ نے اپنی تمام زندگی حکم خدا وندی اوراتباع رسول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گزاری ۔ آپ کی زندگی کا اوڑھنا بچھوناحقیقی فقرو عرفان تھا ۔حضرت سخی سلطان باھوؒ کا وہ فقرو عرفان جو وقت کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اوٹ میں جا کر فارسی زبان کے پردوں میں چھپ گیا تھا اسے آپ نے تاریخ کے پردوں اور حجابات سے نکال کر انتہائی آسان فہم تشریحات کے ساتھ ازسر نو اپنی شہرہ آفاق کتاب عرفان کی صورت میںپیش کیا۔ آپ نے فرمایا کے دین اسلام کے دو رُخ اور دو پہلو ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی و رحانی ۔ظاہری رُخ جسے شریعت مطہرہ کا نام دیا گیا ہے اسے علماءاور فقہاءاپناتے ہیں جبکہ دوسرا رُخ روحانی اور باطنی جسے فقرو تصوف کے نام موسوم کیا گیا ہے اُسے فُقراءاولیاءاور صوفیاءاختیار کرتے ہیں علم تصوف اور فقرو عرفان کا اصل مقصد اسلام کے اسی دوسرے روحانی رُخ کو ثابت کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا ہے۔ دین اسلام میں شریعت مطہرہ کے بغیر فقرو عرفان و تصوف کا کوئی وجود نہیں ہے فقر و تصوف آپ کے وسیلہ سے حسب استعداد روحانی اور باطنی کمالات تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے ۔آپ نے ذکر الہی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ذکر اور تصور اسم اللہ ذات میں ہی انسان کی روحانی اور باطنی ترقی کا راز پنہاں ہے ۔ اگرچہ کوئی شخص ساری زندگی سخت مجاہدے اور ریاضتوں میں مصروف رہے ان ظاہری اعمال سے اطاعت و بندگی اور نفس کا تزکیہ تو ہو جاتا ہے مگر قلب تاریک اور مردہ ہی رہتا ہے ۔آپ اپنے ارادتمندوں سے گفتگو کے دوران اکثرو پیشتر اسم اللہ ذات کے ذکر پہ خصوصی توجہ کا حکم ارشاد فرماتے کہ یہ کُن کی کُنجی ہے ایک جگہ کرامت کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کرامت ولی اللہ سے از خودسرزد ہو جاتی ہے ۔ارادے سے کثرت کرامات کے ظہور سے ولائیت کے اعلی مراتب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔پز مردہ دل شخص فقیر ولی اللہ کے پاس حاضر ہو اور اس کادل ایک باطنی توجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید ہو جائے یہ حقیقی کرامت ہے ۔
آپ نے اپنی تمام زندگی دین متین اورحقیقی تصوف وروحانیت اور فقر و عرفان کی ترویج و اشاعت میں بسر کی ۔آپ کا وصال مبارک 18-17 اکتوبر1960کی شب ہو ا ۔آپ کی جملہ مساعی اور تبلیغ کے سبب ایک زمانہ فیض یاب ہوا اور تا قیامت فیضیاب ہوتا رہے گا ۔ ہر سال آپ کے مزار پُر انوار پر 18,17,16 اکتوبر کو آپ کا عرس مبارک سجادہ نشین صاحبزادہ فقیر ہارون احمد سروری قادری مدظلہ کی زیر نگرانی انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتاہے ۔

ای پیپر دی نیشن