پاکستان میں زیادہ تر ماجرے وہی ہوتے ہیں جو پہلے بھی ہوتے آئے ہیں۔ یعنی نیا ماجرا کچھ نہیں‘ پرانی چیزیں ری۔ پلے ہوتی رہتی ہیں۔ اس بار‘ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کچھ نیا ہونا شروع ہوا ہے۔ تازہ ترین بیانیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ ہی سپریم ہے۔ اس سے پہلے ہر بار عدالت نے یا تو ڈنڈے کو سپریم قرار دیا یا پھر یہ کہا کہ ہماری ججی‘ ہماری مرضی‘ ہمارا بنچ‘ ہماری مرضی۔ پارلیمنٹ کبھی کسی کھاتے میں نہیں رہی‘ اب یکایک وہ کھاتے کے پہلے صفحے پر آگئی۔ انقلاب نہیں تو کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کرکے کیا۔
میری ججی میری مرضی‘ میرا بنچ میرا حکم والے احباب اور سیاست کے میدان میں ان کے تعلق دار اس نئے ماجرے پر ازحد مایوس ہیں۔ مشتعل البتہ نہیں ہیں کہ غصہ کیا تو پھر غصے کے سوا اور بھلا کیا ہوگا۔
................
عدالت نے اگرچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق دینے کے پارلیمانی قانون کو منظور کیا ہے‘ لیکن اسے موثر بہ ماضی نہیں کیا ہے۔ یعنی نوازشریف اپنی تاحیات نااہلی والی سزا کے خلاف اپیل نہیں کر سکیں گے جس کی انہیں بھی توقع تھی اور ان کے چاہنے والوں کو بھی۔
تاحیات نااہلی تو بہرحال ختم ہوئی۔ پارلیمنٹ ایک الگ قانون کے تخت اس کی حد پانچ سال مکمل کر چکی ہے اور نوازشریف کے یہ پانچ سال پورے ہو گئے۔ وہ الیکشن لڑ سکیں گے‘ لیکن ثاقب نثار اینڈ ہم خیال کارپوریشن کی وہ ”سزا“ اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ یعنی ریکارڈ میں یہ بات رہے گی کہ نوازشریف کو اقامہ والے معاملے میں سزا سنائی گئی تھی۔
کیا یہ بات نوازشریف کے دامن پر ”داغ“ بنی رہے گی؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ان کو ناحق‘ سراسر ناجائز اور زبردستی کی سزا سنائی گئی اور یہ بات ہر ایک مانتا ہے۔ نوازشریف کے حامی بھی اور مخالف بھی۔
ماضی میں پاکستان سمیت کئی مسلمان ممالک کے حکومتی اور غیرحکومتی رہنماﺅں کو سیاسی بنیاد پر فوجداری سزائیں دی گئیں۔ کسی نے ان کو درست تسلیم کیا۔
کسی نے نہیں‘ ظلم اور زیادتی کا شکار ہونے والے نوازشریف کیلئے یہ معاملہ مظلومیت کا تمغہ بن کر ساتھ رہے گا الایہ کہ نئی پارلیمنٹ آئینی اختیارات کے تحت یا دوتہائی اکثریت کا سہار لیکر اس داغ کو مٹا ڈالے۔ زیادہ بہتر مشورہ یہ ہے کہ ”تمغہ“ پاس رکھا جائے۔ داغ تو ثاقب نثار اینڈ ہم خیال کارپوریشن کے ماتھے پر لگا ہے۔
................
ایک اسرائیلی اخبار نے لکھا ہے کہ قیام اسرائیل کے بعد غزہ پر اتنی تباہی نازل نہیں ہوئی جتنی اس بار ہوئی ہے۔ ریڈ کراس نے کہا ہے کہ غزہ کے ہسپتال بہت جلد مردہ گھر بننے والے ہیں۔ یعنی یہاں زیرعلاج سارے کے سارے زخمی مر جائیں گے کیونکہ بجلی کٹ گئی ہے‘ پانی بھی نہیں مل رہا۔
غزہ میں نقصانات‘ تباہی اور درندگی نے حلب پر شامی سپاہ کی تاراجی کی تاریخ تازہ کر دی ہے۔ ملبے میں مسلسل نعشیں مل رہی ہیں۔ 60 فیصد مرنے والے عورتیں اور بچے ہیں۔ بچوں کو یہ بات بالکل نہیں سمجھ آرہی کہ ان پر بم کیوں مارے جا رہے ہیں اور کوئی بھی انہیں بچانے کیوں نہیں آرہا۔ اور ان سے بھی چھوٹے بچوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یکایک یہ کیا ہونے لگا۔ سینکڑوں بچے ماﺅں سے‘ سینکڑوں مائیں بچوں سے محروم ہو گئی ہیں۔
ایک اسرائیلی جنرل نے کہا ہے کہ حماس کا ہر راکٹ گرانے پر آئرن ڈرم کا خرچہ چالیس ہزار ڈالر بنتا ہے۔ یعنی فی راکٹ ڈیڑھ کروڑ روپے .... ہیں۔ جنرل نے یہ بات فخر کے ساتھ بتائی ہے کہ دیکھو ہمارے پاس کتنا پیسہ ہے یا تشویش کے ساتھ کہ خرچہ بہت زیادہ ہورہا ہے۔ سرکاری بنک ”ھاپو ٹیم“ نے کہا ہے کہ اب تک کی اس لڑائی میں اسرائیل کے 6 ارب 80 کروڑ ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے پاکستان کو چھ سات سال میں جتنا قرضہ ملتا ہے‘ اسرائیل چھ روزہ جنگ میں خرچ کر چکا ہے۔ بنک نے کہا‘ ”اسرائیل بجٹ کا خسارہ اگلے سال تک 15 فیصد ہوجائے گا۔
جو ہوا‘ اسرائیل کی توقع کے خلاف ہوا اور جو ہورہا ہے‘ اس کی توقع کے خلاف ہورہا ہے۔ غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیئے جانے کے باوجود اسرائیلی فوجی اداروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ رات ایسے ایک ادارے پر حملہ کرکے درجنوں ٹینک تباہ کر دیئے گئے۔ تل ابیب پر ہونے والی راکٹ باری جانی نقصان توکچھ ایسا نہیں کر سکی‘ لیکن شہر کی اقتصادی اور سماجی زندگی ضرور مفلوج ہو گئی۔
عبرانی کے اخبار ”ہارٹز“ نے جو اسرائیل کا بڑا اخبار ہے‘ ایک تشویشناک رپورٹ چھاپی ہے جس کی سرخی (عنوان) کا ترجمہ انگریزی مترجم نے Esraeel Utters Its Breath یعنی اسرائیل کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ اخبار نے مضمون کی تان اس بات پر توڑی ہے کہ ہم حماس کا کبھی خاتمہ نہیں کر سکتے‘ ہمیں فلسطینیوں کو ان سے چھینی گئی زمینیں واپس کرنا ہونگی۔
قطر نے انتباہ کیا ہے کہ غزہ بر بمباری بند نہ ہوئی تو ہم قدرتی گیس کی سپلائی (عالمی منڈی میں) روک دیں گے۔ ترکی اورسعودی عرب کے بعد قطر تیسرا اسلامی ملک ہے جس نے کھل کر فلسطین کی حمایت کی ہے۔ امید کرنی چاہئے‘ بمباری ہفتے دو ہفتے مزید جاری رہی تو کوئی نہ کوئی چوتھا اسلامی ملک بھی فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کر دے گا۔ ویسے بمباری کی مذمت تو پاکستان نے بھی کی ہے۔
حزب اللہ نے امریکہ کو یقین دلایا ہے کہ تسلی رکھئے‘ ہم حماس کی مدد میں کچھ نہیں کریں گے۔ ہاں‘ امریکہ بیچ میں آیا تو اس کے اڈوں پر حملے ضرور کریں گے۔ امریکہ بیچ میں بھی آتا ہے؟ کبھی آیا نہ کبھی آئے گا۔ اس کے تو صرف بحری بیڑے آتے ہیں۔
................
امریکی صدر ”جیو“ بائیڈن نے کہا‘ حماس والوں نے چالیس بچے اغوا کرکے ان کے سر قلم کر دیئے۔ وائٹ ہاﺅس نے کچھ ہی دیر بعد بیان جاری کیا کہ چالیس اسرائیلی بچوں کے اغوا اور قتل کی خبر جھوٹ ہے۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
پہلی بار‘ جی ہاں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر کے منہ پر اتنا بڑا جوتا خود وائٹ ہاﺅس ہی کی طرف سے رسید کیا گیا۔
بائیڈن نے‘ دریں اثنا ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف کارروائی ضرور کرے‘ لیکن ایسا کرتے ہوئے عالمی قوانین کا بھی احترام کرے۔کل تک تو بائیڈن کا لب و لہجہ کچھ اور تھا۔ ویسے اب غزہ میں عالمی قوانین کا احترام کرنے کیلئے بچا ہی کیا ہے۔
ایک جوتا وائٹ ہاﺅس سے
Oct 13, 2023