دنیا کی سوپر سونک مسافر جہازوں کی طرف پھر واپسی 

سپر سانک جہاز کونکورڈ کو پہلا اور آخری حادثہ 
اس کے بعد اس کا لائسنس کینسل اور دنیا میں اڑنے پر پابندی لگا دی گئی
مگر ایک بار پھر سپر سونک پلین کی نئی آن بان کے آمد آمد 
کب ایک بار پھر مسافروں کو لے کر اڑان بھرے گا

کونکورڈ پلین ساؤنڈ کی سپیڈ سے بھی تیز اڑتا ہوا یہ جہاز جب آسمان کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا تھا تو دنیا گویا سکڑ جاتی تھی۔ لیکن کیسے ایک حادثے نے دنیا سے کونکورڈ  پلین کا نام و نشان مٹا دیا اور جس کے بعد کسی نے دوبارہ اس  ہوائی جہاز میں سفر کرنے کی ہمت نہیں کی۔ آئیے جانتے ہیں۔بالفرض خیبر سے کراچی تک کا فاصلہ تقریباً 2150 کلومیٹر میٹر ہے۔ ایکسپریس وے بن چکا ہے۔اگر آپ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بنا رکے گاڑی چلاتے ہیں تو کراچی پہنچنے میں آپ کو تقریباً 22 گھنٹے لگیں گے۔ عام ہوائی جہاز سے یہی فاصلہ آپ تقریباً تین گھنٹے میں طے کریں گے، لیکن وہیں اگر آپ کونکورڈ سے سفر کرتے ہیں تو یہ دوری ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے کرتے ہیں۔
ذرا سوچیے 2200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے اڑتا ہوا کونکورڈ جب آواز کی سپیڈ سے بھی تیز بھاگتا ہوگا تو اس میں سفر کر رہے پیسنجرز کو کیسا لگتا ہوگا؟ آپ اور ہم آج بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ لیکن آج سے کئی دہائیاں قبل کونکورڈ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
 سوپر سونک سپیڈ سے اڑتا ہوا یہ جہاز پلک جھپکتے ہی لوگوں کو ہزاروں کلومیٹر دور لے جاتا تھا۔اس کا سفر سپر سونک سے الٹرسونک کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک 25 جولائی  2000ء کو وہ ہوا جس کے بعد پھر کسی نے کونکورڈ میں سفر کرنے کی سوچ  بھی دل و دماغ میں نہیں آنے دی۔ اس دن ہوئے کونکورڈ کریش میں نہ صرف سیکڑوں معصوم لوگوں کی جان چلی گئی بلکہ پوری دنیا سے کونکورڈ جہاز کا نام و نشان ہی مٹ گیا۔
اس حادثے کے بارے میں جاننے سے پہلے ہمیں کونکورڈ جہاز سے جڑی کچھ اہم معلومات لینی ہوں گی، جس سے اس حادثے کی وجوہات کو اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ کونکورڈ ایک سپر سونک ہوائی جہاز تھا جو آواز کی رفتار سے بھی دو گنی سپیڈ سے سفر کرتا تھا۔ اسی تیز سپیڈ سے اڑنے کے لیے کونکورڈ کی باڈی اور ونگز کو بہت سے سپیشل ایرو ڈائنمک شیپ میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ آپ سبھی نے کونکورڈ جہاز کے بے حد خوبصورت ڈیلٹا ونگز ڈیزائن کو دیکھا ہی ہوگا، جو ہوا میں تیزی سے اڑتے ہوئے کسی باز کی طرح لگتے تھے۔ اپنے ڈیلٹا ونگ ڈیزائن کی وجہ سے ہی کونکورڈ سب سونک رفتار سے لے کر سپر سونک رفتار تک آسانی سے اڑ سکتا تھا۔ لیکن اسی ڈیلٹا ونگ ڈیزائن کی وجہ سے کونکورڈ کو بہت ہی تیز رفتار اور اونچے اینگل سے ٹیک آف اور لینڈ کرنا پڑتا تھا، تاکہ جہاز کو ہوا میں رہنے کے لیے ضروری لفٹ مل سکے۔ 
اگر اور آسان زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں تو آج کل بوئنگ 737 جہاز کو ٹیک آف کرنے کے لیے تقریباً 140 سے 150 ناٹس کی سپیڈ پر رن وے پر دوڑنا پڑتا ہے۔ وہیں کونکورڈ جہاز کو ٹیک آف کرنے کے لیے تقریباً 200 ناٹس کی سپیڈ کی ضرورت ہوتی تھی۔ لیکن اتنی تیز سپیڈ سے رن وے پر دوڑنے کی وجہ سے کونکورڈ کے ٹائرز پر بہت زیادہ پریشر پڑتا تھا اور اسی وجہ سے اپنی 30 سال کی سروس میں تقریباً 47 بار کونکورڈ  کے ٹائر ٹیک آف کرتے ہوئے بلاسٹ ہو گئے تھے۔ اتنی تیز سپیڈ پر ٹائر بلاسٹ ہونے کی وجہ سے کئی بار ٹائر کے اڑتے ہوئے ٹکڑے کونکورڈ کے ونگز کے نچلے حصے سے بھی ٹکرا گئے تھے جس سے ونگز میں لگے فیول ٹینک میں سوراخ ہو گیا تھا اور اس کے ہائیڈرلک سسٹم کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ ان حادثوں کی تحقیق کے بعد کونکورڈ کے ٹائر اور ہائڈرولک سسٹم میں بہت بدلاؤ کرنے کے مشورے دیئے گئے تھے۔ حالانکہ انویسٹیگیشن ٹیم کو یہ اندیشہ بھی تھا کہ ٹائر بلاسٹ کی وجہ سے ہونے والے فیول لیک سے آگ بھی لگ سکتی ہے لیکن انہیں اس بات کا اندیشہ بہت ہی کم نظر آتا تھا جس وجہ سے اسے اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ کونکورڈ میں اولمپک برینڈ کے چار ٹون اسپول ٹربو جیٹ انجن لگے ہوئے تھے جنہیں ڈیلٹا ونگز کے پیچھے کی طرف ہائیڈرولک سسٹم کے ٹھیک اوپر لگایا گیا تھا۔ اپنے سپیشل ڈیزائن اور ملٹی پل ایئر انٹیک فیچرز کی وجہ سے یہ انجنز کونکورڈ کو سپرسونک سپیڈ دیتے تھے۔
 25 جولائی  2000ء کونکورڈ کی ایئر فرانس فلائٹ 4590 پیرس ایئرپورٹ سے اڑان بھر کر نیویارک جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس دن شروعات سے ہی سلائیڈ میں کچھ ٹیکنیکل پرابلمز آ رہی تھیں جس کی وجہ سے ایک بار تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ فلائٹ کے لیے کسی دوسرے کونکورڈ کو استعمال کیا جائے۔ لیکن پھر آخر کار اسی کونکورڈ کے ساتھ اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک چارٹر فلائٹ تھی جسے ایک جرمن ٹورسٹ کمپنی پیٹر ڈلمنکروسز نے ہائر کیا تھا۔ اس دن اس فلائٹ میں سفر کرنے والے زیادہ تر لوگ جرمن ٹورسٹ تھے، جو اپنے 16 دنوں کی کروز ٹریول کے لیے نیویارک جا رہے تھے۔
 اس دن فلائٹ کو 53 سالہ کیپٹن کرسچن مارٹی اڑا رہے تھے۔ جو پچھلے 33 سالوں سے فرانس میں کام کر رہے تھے کیپٹن کرسچن مارٹی کے پاس 13477 گھنٹے فلائٹس کا تجربہ تھا۔ جس میں سے 317 گھنٹے کا تجربہ کونکورڈ جہاز کو اڑانے کا تھا۔ 50 سالہ فرسٹ آفیسر جین مارکٹ اور 58 سالہ لائف انجینئر گلز جرڈیناڈ بھی اڑان میں کیپٹن کا ساتھ دے رہے تھے۔ یہ ہنرمند اور ماہرافراد تھے، جنہیں خاص طور پر کونکورڈ جہاز کو اڑانے کی تربیت دی گئی تھی۔
 دوپہر تقریباً چار بجے کیپٹن کرو نے پری فلائٹ چیکس شروع  کیے، گراؤنڈ انجینئر کی تصدیق کے بعد کپتان نے فلائٹ میں فیول بھرنے کا حکم دیا۔ اس دن فلائٹ میں تقریباً 95 ٹن فیول بھرا گیا تھا جو کونکورڈ کے زیادہ سے زیادہ وزن  کے کافی قریب تھا۔ دوپہر کے تقریباً چار بج کر 25 منٹ پر فلائٹ نے اپنا پش بیک پراسیس شروع کیا۔ جس کے بعد ایک ترتیب سے انجن کو سٹارٹ کیا گیا۔ کونکورڈ فلائٹ کو ٹیک آف کرنے کے لیے اس دن 26 آر کا شیڈول دیا گیا تھا، جو پیرس ایئرپورٹ کا سب سے بڑا رن وے تھا اور تقریباً چار بج کر 35 منٹ پر کونکورڈ فلائٹ نے رن وے کی طرف بڑھنا شروع کیا۔
 جب کونکورڈ فلائٹ رن وے 26 آر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ٹھیک اسی وقت کونٹی نینٹل فلائٹ DC10 اسی رن وے سے ٹیک آف کرنے جا رہی تھی۔ ٹیک آف کے دوران DC10 فلائٹ کے رائٹ انجن میٹل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر رن وے پر گر گیا۔ DC10 فلائٹ کے ایئر کرو کو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا اور انہوں نے نارمل طریقے سے اپنا ٹیک آف پورا کیا۔ بنا کسی کو پتہ چلے وہ میٹل کا ٹکڑا اب اسی رنوے کے بیچوں بیچ پڑا تھا جس پر سے کونکورڈ  فلائٹ کو ٹیک آف کرنا تھا۔
 دھیرے دھیرے ٹیکسی وے سے گزر کر کونکورڈ فلائٹ اب رن وے پر پہنچ چکی تھی اور کیپٹن نے ٹیک آف کے لیے فلائٹ کرو کو فائنل بریفنگ دینے کا پروسیس شروع کیا۔ عام طور پر اس ٹائپ کی ٹیک آف بریفنگ میں ان سبھی ایمرجنسی سچویشنز کو ڈیسائڈ کیا جاتا ہے جس میں رن وے پر دوڑتے ہوئے جہاز کا ٹیک آف کینسل کیا جا سکے۔ جہاز کی سپیڈ اور سبھی ایمرجنسی سچویشنز کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر 0-100 کی سپیڈ پر کچھ بھی قسم کی خرابی آتی ہے تو ٹیک آف کو کینسل کر دیا جائے گا۔ 100-150  کی سپیڈ پر ٹیک آف کو تب ہی کینسل کیا جائے گا اگر جہاز کے انجنز میں آگ لگ جائے یا جہاز کا کوئی ٹائر پھٹ جائے اور فائنلی اگر رن وے پر سپیڈ 150  سے زیادہ ہو گئی تو کسی بھی حالت میں ٹیک آف کو کینسل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس سپیڈ پر جہاز کو روکنا ناممکن ہوگا اور جہاز پکا کریش ہو جائے گا۔ اس لیے  جہاز کی اتنی رفتار ہو جانے کے بعد یہی صحیح ہوتا ہے کہ آپ ٹیک آف جاری رکھیں اور ہوا میں جانے کے بعد سیچوایشن کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔
تقریباً چار بج کے 42 منٹ پر کونکورڈ فلائٹ ٹیک آف شروع کرتی ہے۔ ٹیک آف سپیڈ پر جانے کے لیے کیپٹن چاروں اطرف سے لیولز کو فل فارم میں آگے کرتا ہے جس کے بعد آگ اگلتے ہوئے چاروں انجنز پوری طاقت سیجہاز کو آگے بڑھانے لگتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں کونکورڈ  150 ناٹس کی سپیڈ پر پہنچ کر رن وے پر دوڑنے لگتا ہے۔ اس سپیڈ پر آنے کے بعد اب جہاز کو کسی بھی حالت میں روکا نہیں جا سکتا۔
 تبھی اچانک جہاز کا لیفٹ ٹائر DC10 سے گرے ہوئے میٹل پارٹ کے اوپر سے گزرتا ہے اور زوردار دھماکے کے ساتھ ٹائر پھٹ جاتا ہے۔ اتنی تیز سپیڈ پر بلاسٹ ہونے کی وجہ سے ٹائر کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اور میٹل پارٹس لیفٹ ونگ کے نچلے حصے میں بہت تیزی سے ٹکرانے لگتے ہیں۔ یہ ٹکڑے اتنی تیز فورس کے ساتھ ونگ سے ٹکراتے ہیں کہ ونگز میں لگے فیول ٹینک میں چھید ہو جاتا ہے۔
 ٹینک کے پورا بھرا ہونے کی وجہ سے فیول بہت ہی تیزی سے لیک ہونے لگتا ہے۔ ٹائر کے ٹکڑے اور میٹل پارٹس کے ٹکرانے کی وجہ سے کانکورڈ  کا لینڈنگ گیئر بھی ڈیمج ہو جاتا ہے اور اس میں لگی کچھ وائرز ٹوٹ کر ونگز کے نیچے لٹکنے لگتی ہیں۔ 
ایک دوسرے سے ٹکرانے کے باعث ان تاروں سے بہت ہی تیز چنگاریاں نکلنے لگتی ہیں۔ ٹینک سے لیک ہوتا ہوا فیول جیسے ہی تاروں سے ہونے والی چنگاریوں سے ٹکراتا ہے تو فیول میں آگ لگ جاتی ہے۔
 ٹائر پھٹنے کی وجہ سے رن وے پر بھاگتا ہوا کونکورڈ اب لیفٹ سائیڈ کی طرف مڑنے لگتا ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے کپتان ریڈار پیڈل کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹائرز کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے کے ساتھ ساتھ اب فیول ٹینک کا دھواں لیفٹ سائیڈ میں لگے دونوں انجنز کے اندر جانے لگتا ہے جس کے باعث وہ دونوں انجنز اچانک سے بند ہونے لگتے ہیں اور اپنی پاور کھونے لگتے ہیں۔ لیفٹ سائیڈ کے دونوں انجنز بند ہونے کی وجہ سے اب کاکپٹ میں بھی انجن فیلیئر کا وارننگ میسج آنے لگتا ہے۔ پائلٹس ابھی انجن فیلیئر کے میسج کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ اچانک کوکپٹ میں انجن فائر کے وارننگ میسج بھی ڈسپلے ہونے لگتے ہیں۔
 یہ سب حادثات، کچھ سیکنڈز میں ہی اتنی تیزی کے ساتھ  ہو رہے تھے کہ پائلٹ اور فلائٹ انجینیئر کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ 
اب تک کنٹرول ٹاور میں بیٹھے لوگوں کو بھی رن وے پر دوڑتے کونکورڑ سے نکلتی آگ کی لپٹیں دکھائی دے چکی تھیں۔ کنٹرولر نے فوراً کونکورڈ کے پائلٹ کو ریڈیو پر اس کے متعلق آگاہ کیا۔ لیکن اب تک کونکورڈ اتنی سپیڈ پر پہنچ چکا تھا کہ اسے رن وے پر روکنا ناممکن تھا۔ اب رن وے بھی تقریباً ختم ہو چکا تھا اور پلین کسی بھی وقت ایئر پورٹ کی باؤنڈری سے ٹکرا کر کریش ہو سکتا تھا۔ 
یہ سب دیکھتے ہوئے کپتان نے آخر کار کونکورڈ کو ٹیک آف کروا دیا۔ ایئرپورٹ کے رن وے پر لگی کچھ لائٹس کو توڑتا ہوا کونکورڈ آخر کار ہوا میں پہنچ گیا۔ لیکن دونوں لفٹ انجنز فیل ہونے کی وجہ سے آگ کی لپٹوں میں گھیرا کونکورڈ اب بھی لیفٹ سائیڈ کی طرف جھکتا جا رہا تھا۔ کاکپٹ میں اب بھی لگاتار انجن فائر کے وارننگ میسج  آرہے تھے۔
 فلائٹ انجینئر نے فوراً فائر پروسیجر کو فالو کرتے ہوئے انجن تھرسٹ کو کم کر کے فائر لیورز کو ایکٹیویٹ کر دیا۔ 750 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اوپر جاتا ہوا کونکورڈ اب تقریباً 100 فٹ کی اونچائی پر پہنچ چکا تھا۔ دونوں لیفٹ انجنز فیل ہونے کے باعث جہاں سپیڈ بہت تیزی سے کم ہو رہی تھی وہیں آگ کی وجہ سے جہاز کے لیفٹ سائیڈ کا ونگ اور دوسری کنٹرول یونٹ بھی بہت ڈیمج ہو چکے تھے۔ پائلٹ جہاز کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے، لیکن جہاز لیفٹ سائیڈ کی طرف جھکتا ہی جا رہا تھا۔ اب تک جہاز تقریباً 113 ڈگری لیفٹ سائیڈ پر جھک چکا تھا۔ پائلٹ اب بھی کونکورڈ کو کسی طرح سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن بد قسمتی سے اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ تقریباً چار بج کے 44 منٹ پر ایئرپورٹ سے کچھ ہی دوری پر کونکورڈ گنجان سے ایریا میں  ایک ہوٹل سے ٹکرا کر کریش ہو گیا۔ پورا فیول بھرا ہونے کی وجہ سے کریش کے فوراً بعد کونکورڈ میں آگ لگ گئی۔ بدقسمتی سے کونکورڈ میں سوار کسی بھی پیسنجر یا کرو ممبر کو بچایا نہیں جا سکا۔
 اس خوفناک حادثے میں کونکورڈ میں سوار 109 لوگوں کے ساتھ ہوٹل کے چار ملازم بھی مارے گئے۔ سب کی سوچ اورتخیل سے دور یہ ایک بہت ہی بھیانک حادثہ تھا اور جلد ہی اس کی وجہ جاننے کے لیے چھان بین شروع کر دی گئی۔ اپنی تحقیقات کے بعد انویسٹیگیشن ٹیم نے کہا کہ کونکورڈ کے کریش ہونے کی وجہ اس کے ٹائر کا پھٹ جانا تھا جس کے بعد اس کے فیول ٹینک میں آگ لگ گئی اور دونوں انجنز فیل ہو گئے۔ اسی رپورٹ کے فوراً بعد کونکورڈ کا فلائنگ سرٹیفیکیٹ کینسل کر دیا گیا اور کمپنی کو کونکورڈ  کے سٹرکچر میں بہت سارے حفاظتی  بدلاؤ کرنے کا حکم دیا گیا۔ ان سبھی ابتلاؤں کی وجہ سے پوری دنیا میں تقریباً ایک سال تک سبھی کونکورڈ فلائٹس کو بند کر دیا گیا۔  سبھی تبدیلیاں اور موڈیفکیشن کرنے کے بعد بھی آخر کار 24 اکتوبر 2003ء￿  کو برٹش ایئر ویز نے اپنی آخری کونکورڈ فلائٹ کو بھی بند کر دیا۔
سپر سونک تیارے کی پروازیں بند ہو گئی تھی لیکن اس میں مزید بہتری کے ساتھ ساتھ اسے ایک بار پھر کمرشل طور پر چلانے کی تیاریاں بھی ہونے لگیں۔
دہائیوں کی کوششوں کے بعد سپر سونک طیاروں پر سفر کا خواب پورا ہونے والا ہے۔امریکی کمپنی بوم سپر سونک کے تجرباتی طیارے نے اپنی پہلی آزمائشی پرواز کامیابی سے مکمل کرلی ہے۔حال ہی میں ایکس بی 1 نامی طیارے نے کیلیفورنیا میں آزمائشی اڑان بھری۔اس طیارے پر 2014 سے کام جاری ہے اور کمپنی کے مطابق آئندہ چند ماہ بہت اہم ثابت ہوں گے۔اس طیارے نے پہلی پرواز میں تمام تر اہداف حاصل کیے۔اسے 7100 فٹ کی بلندی پر 273 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑایا گیا تھا، جو بظاہر کمرشل طیاروں سے بہت کم ہے۔مگر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو Blake Scholl کے مطابق آئندہ 5 سے 7 ماہ کے دوران 10 سے 15 مزید آزمائشی پروازیں ہوں گی جس کے دوران ہم ساؤنڈ بیرئیر توڑ دیں گے۔آسان الفاظ میں اس طیارے کو آواز کی رفتار (760 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے اڑایا جائے گا۔ مستقبل میں یہ طیارہ 1300 میل فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے سفر کر سکے گا۔اب تک دنیا بھر میں دہائیوں قبل 2 سپر سونک طیارے تیار کیے گئے تھے ایک سوویت Tupolev Tu-144 اور دوسرا برطانوی / فرنچ Concorde، جس نے آخری بار اکتوبر 2003 میں اڑان بھری تھی۔اس کے بعد سے سپر سونک طیاروں کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے، مگر اب تک وہ کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں۔ایکس بی 1 کو کاربن فائبر سے تیار کیا گیا ہے جبکہ پرواز کے لیے اگیومینٹڈ رئیلٹی ٹیکنالوجی کی مدد بھی لی جائے گی۔اس طیارے کے آگے لمبی ناک نکلی ہوئی ہے جس میں 2 کیمرے نصب ہیں جو پرواز کے راستے اور دیگر کاموں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

بلیک چل نے دعویٰ کیا کہ یہ ٹیکنالوجی ماضی کے سپر سونک طیاروں سے بہت زیادہ بہتر ہے۔یہ طیارہ 100 فیصد ماحول دوست ایندھن پر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر ابھی یہ ایندھن زیادہ مقدار میں تیار نہیں ہوتا۔ کمپنی نے کمرشل پروازوں کے لیے رواں دہائی کے اختتام تک کا ہدف طے کر رکھا ہے۔اگرچہ یہ طیارہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں مگر کمپنی کو 130 آرڈر مل چکے ہیں

ای پیپر دی نیشن