اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو 

 نیند کا لینا صحت کے لیے بہت ضروری ہے مگر ایسی نیند نہیں سونا چاہیے جیسے اس وقت ہماری پاکستانی قوم سو رہی ہے۔ اب تو اس قوم کا مذاق بھی اڑنے لگا ہے ایک ٹرالر کے پیچھے لکھا تھا کہ ہارن مت بجائیں قوم سو رہی ہے کہیں بیدار نہ ہو جائے اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہونا چاہیے ، یہ قوم سوئے رہے یا جاگتی رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ قوم اپنا حق لینا بھول چکی ہے۔ لہذا نیند کسے پیاری نہیں ہوتی خواب کسے اچھے نہیں لگتے کہتے ہیں کہ خواب دیکھنا اچھی بات لیکن خوابوں میں رہنا کوئی اچھی بات نہیں ملک میں رہنما کوئی ہے نہیں اور قوم نہ صرف مزے سے سو رہی ہے بلکہ خواب در خواب دیکھے چلی جا رہی ہے۔ فجر سے ظہر اور بلآخر عصر کا وقت آن پہنچا یہ قوم نہ جاگی کہتے ہیں کہ مصیبتیں انسان کو بیدار کرنے آتی ہیں لیکن جو بے حسی اور خود غرضی کی افیون کھا کے سوئے گا ہارن تو کیا کوئی ڈرون طیارے کے بم پھٹنے سے بھی نہیں جاگے گا۔

  تاریخ شاہد ہے کہ رات کے ساڑھے تین بجے جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جواہر لال نہرو کو فون کیا تھا تو پتہ چلا کہ وہ سو رہے ہیں اور اسی وقت جب انھوں نے ہمارے قائد اعظم کو کال کی تو پتہ چلا وہ جاگ رہے ہیں تو ماؤنٹ بیٹن نے استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ قائد اتنی رات گئے تک آپ جاگ رہے ہو جب کہ نہرو سو رہا ہے تو قائد کا جواب تھا کہ ’’ اس کی قوم جاگ رہی ہے اس لیے وہ سو سکتا ہے جب کہ میری قوم سو رہی ہے اس لیے مجھے جاگنا ہوگا‘‘
لیکن آج بدقسمتی سے ہمارا قائد بھی اپنی قبر میں سو رہا ہے اور ہماری قوم بھی سو چکی ہے اس لیے قائد کے جسد خاکی کو پوری دنیا میں جہاں میرے قائد کا پاکستان نظر آئے تو وہاں انھیں مدفن کرنا چاہیے تاکہ اتنے سال بعد انھیں قرار واقعی سکون مل سکے کیونکہ یہ میرے قائد کا پاکستان نہیں اگر یہ پاکستان ہے تو یہ وہ پاکستان نہیں ہوسکتا جس کا تصور حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے دیا تھا  جس کے حصول کو صرف اور صرف اسلام کے نام پر ہمارے اکابرین نے ہر طرح کے نذرانے دے کر ممکن بنایا۔
 آج ہمارے بزرگوں کی روحیں کتنی بے چین و بے قرار ہونگی کہ اتنی قربانیوں کے بعد اس عظیم مملکت کو اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ دور حاضر کے حکمران اس کے چپے چپے کو بیچ کھائیں اقتدار کی نورا کشتی ہو حکمران خاندان اس سے اپنی موروثی جائیداد سمجھیں ہر طرف کرپشن افراتفری لوٹ مار کا بول بالا ہو۔ آج وطن عزیز اس گاڑی کی مانند ہے جس کو چلانے والے طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس سے چلانے کی کوشش تو کررہے ہیں لیکن گاڑی چل ہی نہیں رہی اور اس کے چلانے والوں کو یہ علم ہی نہیں ہو رہا کہ گاڑی وہیں کھڑی ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا بس صرف فرق یہ آیا کہ اس کے چلانے والوں کے چہرے بدلتے گئے۔
  آج اتنے سالوں میں جو جو پارٹی اقتدار میں آئی سب نے اپنی جیبوں کو ہی بھرا ملک کو کنگال کرکے چھوڑا کیونکہ انھیں وطن عزیز سے کیا غرض جب کہ وہ نادان نہیں جانتے کہ ان کی شناخت اسی ملک سے ہے پھر عوام نے چہرے نہیں نظام کو بدلو کی خواہش دل میں سجائے ایک ایسی شخصیت کو لے کر آئے جنھوں نے اپنی ’’ میں نہ مانو ‘‘ طبیعت کے تحت ، اپنے عدم تجربے کے باعث رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ان کی سب سے بڑی خواہش چوروں لٹیروں پر ٹیکس لگانا تھا مگر وہ نادان یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ چور چوری میں اتنے ماہر ہیں جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھری سے نہ جائے اور ہوا بھی یہی کہ وہ ان سے ہر معاملے میں دو قدم آگے ہی ہوتے وہ کبھی نہ ٹیکس دیتے نہ دے رہے ہیں ، ان کے نام نہاد سماجی اصلاحات کا سیدھا سیدھا اثر صرف غریب پسماندہ عوام پر ہی پڑا اور پڑ رہا ہے چاہے وہ بے روزگار ہی کیوں نہ ہو وہی ٹیکس دے رہا ہے۔
  آج کی اس مہنگائی کی اصل ذمے داری سالوں کی قیادت سے زیادہ ان پر عائد ہوتی ہے انھوں نے مغربی ممالک سے مرعوبیت کے تمام ریکارڈ توڑ کر ان کی اصلاحات کو اپنے ملک میں رائج کیا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی حکومت بے روزگار شہریوں کو الاؤنس اور سہولتیں دیتی ہے کیا۔؟ تاکہ وہ عزت کی زندگی گذار سکیں ، نہ کہ ایسے مجبور و بے کس شہریوں سے اینٹھ کر صرف و صرف اپنی تجوری بھرنا۔ پٹرول جو مہنگائی کی ایسی اساس ہے جس کی قیمت اکیلے ہی بڑھ جائے تو خود بخود ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے۔
 آج اس ملک کی معیشت کو آپ نے اپنی جیبیں اور اپنے اکائونٹ بھرنے کے لیے کہاں لاکھڑا کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس پیغام پر غور کریں
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اْمرا کے در و دیوار ہلا دو

ای پیپر دی نیشن