عالمی یوم خوراک ہر سال 16اکتوبر کو دنیا بھر میں بھوک،افلاس، غذائی تحفظ اور غذائیت کے مسائل سے متعلق بیداری پیدا کرنے کیلئے ایک خاص تھیم کے تحت منایا جاتا ہے۔ اورعوام الناس کوباور کرایا جاتا ہے کہ انسانی فلاح کے لئے صحت مند خوراک بہت ضروری ہے۔ اور خوراک پر ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا میں مختلف تقریبات و سیمینارس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔عالمی خوراک کے نظام میں موجود چیلنجوں اور ترجیحات کے لحاظ سے تھیم کا انتخاب انتہائی اہم ہے۔ نیزبڑھتی ہوئی آبادی کیلئے پیدوار اورقدرتی وسائل کو بہتر بنانا دونوں غذائی تحفظ اور پائیداری کے حصول کے لئے اہم پہلو ہیں۔خوراک کی بڑھتی ہوئی عالمی طلب کو پورا کرنے کیلئے پیداوار میں اضافہ بہت ضروری ہے، اس مقصد کے لئے جدید زرعی طریقوں کو نافذ کرنا، فصلوں کی پیدوار کو بہتر بنانا، پائیدار کاشتکاری کی تکنیک کو فروغ دینا، اور زرعی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ ایف اے او اقوام متحدہ کی ایک شاخ ہے جو بھوک و افلاس کے خاتمے کیلئے بین الاقوامی سرگرمیوں کی قیادت کرتا ہے۔ یاد رہے د وسری عالمی جنگ کی تباہ کار یوں کے بعد سان فرانسسکو امریکہ میں پچاس ملکوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں اقوام متحدہ کا منشور مرتب کیا گیا۔ اور اقوام متحدہ 24 اکتوبر 1945کو معرض وجود میں آیاتھا۔ اس سال کے عالمی یوم خوراک کی تھیم خوراک کے حق کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنے اور پورا کرنے پر زور دیتا ہے۔ جو ایک بہترین زندگی اور ایک پائیدار مستقبل کے لئے ضروری ہے۔خوراک کا حق ہر سطح کے بین الاقوامی حالات میں تسلیم کیا گیا ہے۔سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے تمام انسان آزاد اور مساوی وقار اور حقوق کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ انھوں نے 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ممبر ممالک سے کہا ہے کہ مستقبل کی کانفرنسوں سے اپنی وابستگی مضبوط کریں تا کہ انسانی حقوق خوراک کے ہوں یا دیگر سب اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تمام ممبرممالک کو اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ ہر فرد کو خوراک تک رسائی حاصل کرنے کے حق کو یقینی بنائیں۔ غذائی تحفظ ایک کثیر جہتی مسلہ ہے جو معاشی، سماجی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف کھانے کی جسمانی دستیابی شامل ہے بلکہ افراد کی اس تک رسائی کی صلاحیت خوراک کی فراہمی کا استحکام اور جو کچھ کھایا جاتا ہے اس کا غذائی معیار بھی شامل ہے۔ خوراک کے حق کو تسلیم کرنے کے باوجود دنیا کو مزید اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔
690 ملین سے زائدلوگ بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ لاکھوں مزید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور وبائی امراض نے غذائی عدم تحفظ کو بڑھایا ہے۔ قدرتی آفات آبادیوں کو غربت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ایفاے او (FAO) کے مطابق ، شدید غذائی عدم تحفظ سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے دنیا میں مزید غذائی قلت کی جانب اشارہ ہے۔
اللہ پاک نے سر زمین پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ لیکن پاکستان میں لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ اورپھر پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ جس کے باعث ملک کا پڑھا لکھا طبقہ جو اس ملک کو ترقی دینا چاہتا ہے وہ بے بس ہے اور وہ پڑھ لکھ کر باہر کا رخ کرتے ہیں۔ جو ڈیم پاکستان میں بنے ہیں وہ بھی پاکستان آرمی نے مارشل لاء کے دور میںبنائے ہیں۔ مگر ان دو بڑے ڈیموں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کو وہ پورے پاکستان کی ضروریات کے مطابق پانی ذخیرہ کر سکیں۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں میں بچپن سے سنتے آ رہے ہیں۔ کہ فیزیبلٹی تیار ہو گئی ہے۔ بس جلد ڈیم بنے گا۔ مگر آج تک نہیں بن سکا۔ یہاں کے لوگ نوالے کو ترس رہے ہیں بارانی علاقوں میں پانی کی کمی کے باعث پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائیٹیوں، ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤں، اسطرح ملک بھر میں بہت ساری زرعی زمین سوسائٹیاں ہڑپ کر رہی ہیں جس سے کسی بھی وقت پاکستان میں خوراک کا مسلہ گھمبیر حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ پوٹھوہار میں لوگوں کے پاس پہلے ہیں زمینیں کم تھیں۔ دوسرا مہنگائی کے باعث لو گ پس گئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل میں غذائی عدم تحفظ کے نتائج سنگین نظر آ رہے ہیں۔ بھوک نہ صرف جسما نی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ علمی ترقی کو بھی متاثر کرتی ہے نیز پیداوری صلاحیت اور معاشی ترقی کو محدود کرتی ہے۔ بچے بھوک افلاس سے خاص طو ر پر کمزور ہوتے ہیں، کیونکہ غذائیت کی کمی ان کی نشو و نما اور صلاحیت پر تاحیات اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے ان چیلنجوں سے نمٹنے اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہر ایک انسان کو مناسب خوراک تک رسائی حاصل ہو۔ تحقیقی سائینسدانوں کا کہنا ہے کہ خوراک کے حق کے حصول کے لئے ہمارے چھوٹے کاشتکاروں کاشتکاروں کی راہنمائی کے لئے حکمت عملی طے کی جائے۔ مقامی کمیونیٹیزکو بااختیار بنانے والے طریقوں پر توجہ مرکوز کر کے، خوراک کا ایک ایسا نظام تشکیل دے کر موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضروریات کو کسی حد تک پورے کرنے میں مدد مل سکے۔نیز مقامی زراعت کو فروغ دے کر غذائی تحفظ کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے مین غذائی تحفظ کو بڑھانے کے لئے چھوٹے کاشتکاروں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ پائیدار زرعی طریقوں میں سرمایہ کاری ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھتے ہوئے پیداوری صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال پیدا ہونے والی خوراک کا 17 سے 19فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میںFAO نے خوراک کے نقصان اور ضیاع کو روکنے کے لئے عوام کی آگاہی پر زور دیا ہے۔ ہر مرحلے پر خوراک کے ضیاع کو کم کرنے کی حکمت عملیوں پر عمل درآمد سے لے کر کھپت تک ، پھر خوراک کی دستیابی کو نمایاں طور پر بڑھایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ملک کی پالیسی کاشتکاروں اور دیگر پیداواری طبقوںکی بر وقت راہنمائی معاشی خوشحالی میں موثر اور مثت نتائج مرتب کرتی ہے۔ حکومتیں یقینا مثبت پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں۔ پالیسی سازوں کو ملکی ضروریات کے پیش نظر خوراک کے تحفظ کو ترجیح دیں اور ایسے منصوبے تیار کریں جو پائیدار ترقی کی ضمانت دیں۔ خوراک کی تقسیم کے نظام کومساوی اور بہتر بنائیں۔مزید برآں مساوی حقوق کی وکالت اور ایسے اقدامات کی حمایت کرنا جو بھوک کی بنیادی وجوہات کو حل کرتے ہیں۔ نیز مقامی اور عالمی تحریکوں میں شامل ہونا، منصفانہ تجارت کی حمایت کرنا، اور کارپوریشنوں اور حکومتوں سے جوابدہی کا مطالبہ وہ طریقے ہیں جن سے افراد خوراک کے حق میں رائے عامہ ہموار کر سکتے ہیں۔ جیسا کی ہم خوراک کے عالمی دن کی یاد مناتے ہیں یہ ضروری ہے کہ ہم سب کے لئے خوراک کے حق کے لئے اپنے عزم کا اعادہ کریں۔ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی کو یقینی بنانا صرف ایک اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک بہتر زندگی اور ایک پائیدار مستقبل کی تعمیر کے لئے ضروری ہے۔ پائیدار طریقوں، موثر پالیسیوں اور اور کمیونٹی کی شمولیت کے ذریعے غذائی تحفظ کے چیلنجوں سے نمٹنے کے ذریعے، ہم ایک ایسی دنیا تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر ایک کو خوراک کا حق حاصل ہو ایک ساتھ مل کر ہم اپنے کھانے کے نظام کو تبدیل کر سکتے ہیں اور بھوک اور غذائی قلت سے پاک مستقبل کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ خوراک کا حق صرف ایک مقصد نہیں ہے۔ یہ ایک صحت مند، زیادہ مساوی، اور پائیدار دنیا کی بنیاد ہے۔