واقعی حالات بدل رہے ہیں!! اسلام آباد میں جتنے کنٹینر اس ماہ میں چھوٹی بڑی روڈ پر دکھائی دے رہے ہیں انہیں دیکھ کرگمان ہوتا ہے کہ ہم کراچی بندرگاہ سے گزر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کس نے ان کنٹینروں کو روڈ بندش کیلئے ایجاد کیا ؟۔ اس کے پیچھے بھی کوئی کرپشن والا ذہن لگتا ہے۔ حکومت کنٹینروں کا بھاری کرایہ ادا کرتی ہے۔ ماضی میں کبھی بھی جلوس اور دھرنے والوں کو روکنے کیلئے یہ طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ ایسا کرنے سے اسلام آباد کا حسن تباہ کر دیا گیا ہے۔ شنگھائی کانفرنس کی وجہ سے شاہراہ دستور ایونیو کو اپنی اصلی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد خوبصورت لگ رہا ہے۔اللہ ادے نظر بد سے بجائے۔لگتا یہی ہے کانفرنس کے دوران ملک بگاڑ نے والے پھر سے رکاوٹیں لگانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس ایریا کو رڈ زون قرار دے رکھا ہے۔،وہاں دفعہ 144 کا نفاذ ہے۔ کانفرنس تک پولیس ، ریجنر اور فوجی دستے نافذ رہے گے۔ جیسے گھروں میں گیڈ لگائے جاتے ہیں اب ایسے ہی گیڈ فائیو سٹارہوٹل، نادرا، بلیو ایریا جناح ایونیو، میرٹ ہوٹل اور مارگلہ روڈ پر لوہے کے بڑے بڑے گیڈ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے نسب کر رکھیں ہیں۔ یہاں سے گزر کر تمام سرکاری اداروں کے ملازمین سیکٹیرہٹ، ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس قومی اسمبلی، سینٹ، سپریم کورٹ، ایف بی آر، شریعت کورٹ، الیکشن کمیشن، نیب، پاکستان ٹیلی ویڑن، ریڈیو پاکستان، اسلام آباد ہائی کورٹ، فارن ایمبیسی میں انہیں گزر کر جاتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں لوگ اس راستے سے آتے جاتے ہیں۔ لیکن اجکل سیکورٹی کے خطرات کے بیش نظر ، احتجاج کو روکنے کے جواز پر یہ تمام راستے اس سوموار کو بند تھے صرف مارگلہ کا راستہ کھلا تھا اس ایریا کے تمام لوگ اسی روڈ سے رینگ رینگ کر گزر رہے تھے۔ اس روڈ پر لاتعداد گاڑیاں موٹر سائیکل بمپر ٹو بمپر ٹریفک تھی۔ سوموار کو آٹھ بجے مری روڈ کے راستے سرینہ ہوٹل پہنچا لیکن گیڈ بند پایا ، پھر نادرا پہنچا وہ بھی بند جناح ایونیو بھی بند دوسرے فائیوسٹارہوٹل کا راستہ بند جب مارگلہ روڈ پہنچا تو دونوں جانب کی ٹریفک جام تھی۔ مزید اس ٹریفک سے مقابلا کرنے کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ٹریفک کے برے حالات دیکھ کر واپسی کی راہ لی اور بارہ بجے تھک ہار کر گھر پہنچا اس دوران ذہنی ٹارچر، پٹرول اور وقت کا ضیا الگ ہوا۔کبھی ایسی صورتحال اسلام آباد میں کبھی پہلے نہ تھی ایسی ہی صورتحال اس وقت دیکھنے میں آ? گی جب برطانوی کرکٹ ٹیم کھیلنے اسلام آباد آئے گی۔فارن کی ٹیم کے آنے سے سرینہ ہوٹل کا راستہ بنداور راولپنڈی کے اسٹیڈیم روڈ کے رہائشی قیدی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اردگرد کے بزنس بند کر دیے جاتے ہیں۔کسی عدالت سے عوام کو ریلیف نہیں ملتا۔ایسا دنیا میں کئی نہیں ہوتا ہے ہم ایسی کھیل کو دیکھنے سے باز آئے۔ یہ بول جاتے ہیں کہ روڈ صرف فارن ٹیم کو لے جانے کیلیے نہیں ہے۔اس پر طلباء سکول کالج اور یونیورسٹی کے جاتے ہیں۔ روڈ سے مریض اسپتال جاتے ہیں قبرستان جاتے ہیں، بارات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ جب روڈ بند ہوتی ہے تو ترقی کا پہہ رک جاتا ہے کھانے پینے کی اشیا کم پڑ جاتی ہیں، ادوایات نہیں ملتی۔ان حالات میں کوئی مر جا ئے تو وہ قتلِ کے زمرے میں آتا ہے۔مگر ایف آء آر نہیں ہوتی۔مشکلات کا کسی کو احساس نہیں۔بے حس ہو چکے ہیں۔انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں خوش رہتے ہیں۔ عوام کو تنگ کرتے ہیں۔ کسی بھی صوبے کا چیف منسٹر سب سے بڑا عہدہ رکھتا ہے۔سیاہ اور سفید کا مالک ہوتا ہے۔ اگر اس کے علاقے کا کتا بھی بھوک پیاس سے مرے گا تو یہ اس کا زمہ دار ہوگا۔ انہیں تو انسانوں کی پرواہ نہیں۔ ہم کیسے مان لیں کہ انہیں اپنے لیڈر قیدی کی پرواہ ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے، دکھاوا ہے۔ گنڈا پور کے پی کے وزیر اعلی ہیں جن کا کام اپنے صوبے کی بہتری کے لے کام کرنا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپنے صوبے کی تمام مشینری پولیس کے ساتھ دوسرے صوبے میں زبردستی گھس کر احتجاج کرنے اور جلوس نکالنے پر لگا رکھی ہے۔ یہ اس سے پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں ایک بار پھر اسلام آباد سرکاری مشینری کے سہارے اسلام آباد داخل ہونے۔ رات کنٹینر پر گزاری۔ پھر دوسرے روز چند سرکاری ملازمین کے ہمراہ بلیو ایریا پہنچے۔ جب کہ دوسری طرف سارا دن دکھاتے رہے کہ تمام علاقے سیل ہیں۔ خندقیں کھود رکھی ہیں لیکن گنڈا پور سرکاری ساتھیوں سمیت پہلے بلیو ایریا پہنچ جاتے ہیں پھر خبر پختونخوا ہاؤس پہنچتے ہیں۔ وہاں پولیس کی بھاری نفری گرفتاری کے لیے پہنچ جاتی ہے مگر ان سے بچ کر پہاڑی راستے کراس کرتے ہوئے ہری پور میں رات گزارتے ہیں۔ میڈیا شور کرتا ہے گنڈا پور کا کچھ پتہ نہیں کہاں ہیں۔ پھر اچانک رات کو خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں پہنچ کر خطاب کر دیتے ہیں لگتا یہی ہے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔ڈرامے کے معاون اداکاروں نے بھی اہم رول ادا کیا۔نقصان شہریوں اور اداروں اور ملک کا ہوا۔ آئندہ سے ایسا ڈرامہ نہ رچایا کریں۔ اس سے حکومتی ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کانفرنس کے بعد بھی ان داخلی و خارجی راستوں کو ایسے ہی بغیر کنٹینروں کے کھلا رکھیں گے۔ اس راستے پہ دو بڑی عدالتیں ہیں۔ جہاں آئے روز مسنگ پرسن کیس چلتے ہیں ججز پوچھتے ہیں کہ کیمروں اور ناکوں کی موجودگی میں اغوا کس نے کیا۔عام شہری کا کیا حال ہوگا جہاں وزیر اعلیٰ کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہے۔؟میڈیا بتاتا ہے کہ وزیر اعلی کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ سرکار اس خبر کی تردید کرتی ہے۔ چوبیس گھنٹے میں عوام نہیں سمجھ سکی کہ کس کی خبر پر یقین کیا جائے۔ پھر اچانگ وزیر اعلی اسمبلی سیشن میں شامل ہوکر دھواں دار تقریر کر رہے ہوتے ہیں۔
کسی نے پوچھا کل شب کہاں تھے؟
پہلے شرمائے پھر ہنس کے بولے
بات تم کیوں ایسی پوچھتے ہو.
جو بتانے کے قابل نہیں ہے
پھر اگلے چوبیس گھنٹے کے بعد ایک سرکاری جرگہ میں وزیر اعلی درمیان میں ان کے ایک جانب وفاقی وزیر داخلہ اور دوسری جانب گورنر صاحب مسائل حل کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ کہانی وہ ڈرامہ کیوں رچایا گیا جس پہ کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ یعنی نہ کھایا نہ پیا گلاس توڑا بارہ آنے۔ عوام کو روڈ بند کر کے کیوں ٹاچر دیا گیا۔ایک بار پھر اس کانفرنس کے موقع پر ڈی چوک کا اعلان یہ کرچکے ہیں۔ جیسے دوہزار چودہ کو چین کے صدر کی آمد پر احتجاج کرنے سے باز نہیں آ? تھے۔ یاد رہے وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے۔ اس زمانے میں فیض اور نثار جیسے لوگ ان کے ساتھ تھے مگر اج حالات مختلف ہیں۔ حکمران گیس بجلی کے بلوں میں لاتعداد ٹیکس ڈال کر بل بناتے ہیں۔ کیس سن کر عدالتوں سے جواب ملتا ہے یہ پالیسی میٹر ہے۔ لہذا کیس ڈس مس۔ اس کے قصور وار ہماری بڑی عدالتوں کے بڑے ججز ہیں۔ان کے ساتھ وکلا کی بار ایسوسیشن بار کونسلیں ہیں۔ جو ان ججز کو سہارا دیتے ہیں جو اپنے حلف کی پاسداری نہیں کرتے۔ جو فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں کرتے۔ جب تک ان ججز کا جزا اور سزا کا نظام ٹھیک اور شفاف نہیں ہو گا۔ عوام ایسے ہی مسائل فیس کرتے رہے گے۔ ججز کرپشن پر پکڑے جانے کے ڈر سے شریف بن کر گھر چلے جاتے ہیں مگر کرپشن کا بنایا ہوا پیسہ جائدادیں مراحات ساتھ لے کر ملک سے باہر کا رخ کرتے ہیں۔ انصاف کا نظام ان ججز سے شروع کریں جن ججز نے غلط فیصلے لکھے سسٹم کو ڈی ریل کیا ایسے ججز کو سزائیں دیں تانکہ جوڈیشری پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔آئین میں ترمیم اگر لانی ہے تو خصوصی عدالتیں بنائیں جو تین ماہ میں کرپٹ ججز کے غلط فیصلے کرنے پر انہیں سزائیں دیں۔ ان پر بھی مقدمات چلائے جائیں جو کھا پی کر ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں اور بیرون ملک چلے جاتے ہیں ان ہر بھی مقدمات چلائیں جو آسودہ خاک ہیں۔ اگر ان فیصلوں پر عمل نہیں کرسکتے تو لکھ دیں کہہ دیں کہ ان کی اپیلیں خدا کے سپرد کرتے ہیں ایسا کرنے سے کم از کم صبر تو آ جائے گا۔