آئینی ترمیم: جلد بازی کس بات کی؟

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی  آئینی ترمیم کا معاملہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اور جس طرح سے جلد بازی میں یہ ترمیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ کسی صورت میں مناسب عمل نہیں ہے۔پاکستان میں بد قسمتی سے زیادہ ترامیم عدالت سے متعلق ہی کی گئیں ہیں اور 6ویں اور 7ویں ترامیم بھی اس بات کی واضح مثال ہیں ،ہمیشہ ہی عدالتوں کے اختیارات کم کرنے اور کسی کو نکالنے کے لیے ایسے فیصلے ماضی میں بھی کیے گئے جن کے کوئی بہتر اثرات مرتب نہیں ہو ئے ہیں۔حالات کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ بہت سے بزرگ اور تجربہ کار پارلیمنٹرین موجود ہیں ،اور سب سے بڑھ کر تو مولانا فضل الرحمان بھی موجود ہیں ،وہ اس تمام عمل میں نہ صرف بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں بلکہ اس مجوزہ ترمیم کو ریشنل (Rational) بھی کرسکتے ہیں۔آئینی عدالت پر اتفاق رائے پیدا کریں ،آئینی عدالت کی ہمارے قانونی نظام اور آئینی فریم ورک میں مثال نہیں ملتی ہے اور نہ ہی ایسا کو ئی رواج ملتا ہے لیکن اگر ایسا کو ئی کام کرنا بھی چاہتے ہیں تو آئینی عدالت کو کسی حد تک سپریم کورٹ کے تابع ہی رہنے دیں۔بہر حال یہ ترمیم کا معاملہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے اس معاملہ کو عوامی بحث کے لیے کھولنا چاہیے اور فرسٹ ریڈ ہونی چاہیے اور ہر ممبر اسمبلی کو اس ترمیم کے حق میں یا مخالفت میں بات کرنی چاہیے اور اپنی رائے دینی چاہیے۔جلد بازی میں اور وقتی فوائد کے لیے اٹھایا گیا کوئی بھی اقدام مستقبل کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔خدارا جو بھی کیجیے سوچ سمجھ کر کیجیے۔یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ملک میں اس وقت شدید پولر ئزیشن کا ماحول ہے ،اور اس ماحول میں تو ویسے ہی آئینی ترمیم جیسا اقدام نہیں لینا چاہیے۔آئینی ترمیم کرنی ہی ہے تو 18ویں ترمیم کی طرز پر ہونی چاہیے ،جس میں کہ پوری کی پوری پارلیمنٹ ہی آن بورڈ تھی اور تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر 6ماہ سے زائد عرصہ غور و فکر کرکے پھر یہ آئینی ترمیم منظور کروائی تھی۔اس طرح سے معاملات چلائے جانے چاہیے جو کہ موجودہ حالات تو ممکن ہی نہیں دیکھائی دے رہا ہے۔آئینی ترمیم کو وقت دیا جانا چاہیے وقت دیے بغیر آئینی ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے اس امر کو سمجھ لینا چاہیے۔ہمارے ہاں ہماری حکومتوں کو بد قسمتی سے آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے کی عادت پڑ گئی ہے جو کہ نامناسب ہے ،اور اب اس روش کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہماری پارلیمان میں بھی قانون سازی نہایت ہی جلد بازی میں کی جاتی ہے۔اور طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جاتا ہے بلڈوز کرنے کی عادت پڑ چکی ہے۔اسی طرح سے آرڈیننس والا نظا م تو پارلیمانی جمہوریت میں ہونا ہی نہیں چاہیے کیونکہ یہ ایک سماراجی نظام کی نشانی تھی اور آزاد مملکت میں تو ایسا ہو نا اس مملکت کے شیان شان نہیں ہے۔ابھی حال ہی میں آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے قانون میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے اختیار کو تبدیل کیا گیا ہے ،جو کسی صورت میں نہیں ہو نا چاہیے تھا۔آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ پر اثر انداز ہو نے کی روایت ڈالنا مستقبل میں ملک کے نظام انصاف کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔مضحکہ خیز قانون سازی نہیں کی جانی چاہیے ،قانون سازی کا عمل جتنا ہی طویل ہو گا اتنا ہی بہتر اور باثر قانون بن سکے گا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں جو حال کرنسی کا ہوا ہے وہی حال آئین کا بھی کیا گیا ہے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔پاکستان کو ہم خود اپنے ہاتھوں سے کھوکھلا کررہے ہیں اور اپنے آپ کو کمزور کر رہے ہیں۔سیاسی رویے متشدد ہو چکے ہیں اور اس میں سیاسی قیادت بھی ذمہ دار ہے۔ہمیں اس تمام صورتحال میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔6ویں اور 7ویں آئینی ترامیم بھی عدالت میں اصلاحات کے لیے لائی گئیں تھیں اور یہ ترامیم 1977ء  کی اسمبلی سے منظورکروائی گئیں تھیں،اور سیدھی بات کروں تو سردار اقبال کو نکالنے کے لیے لا ئی گئیں تھیں ،آئین میں عدلیہ کا کام واضح ہے ،بڑی مشکل سے ہمارے ملک میں وکلا تحریک کے نتیجے میں عدلیہ کو آزادی نصیب ہو ئی ججز کی آزادانہ تقرری کا طریقہ کار تیار کیا گیا اور معاملات بہتر کیے گئے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کسی کو ججز کی تقرری کے طریقہ کار سے اختلافات ہیں ،تو پھر پبلک سروس کمیشن کی طرز پر جو ڈیشل کمیشن بنایا جائے ،جس بھی وکیل کا وکا لت کا تجربہ 10یا 12سال ہو جائے اس وکیل کو جج بنایا جائے اور جج صوبائی سروسز کے ذریعے بنایا جائے۔اور پھر یہی جج ترقی کرتے کرتے سپریم کورٹ تک پہنچے۔ہمارا بطور قوم مورل فائبر اتنا مضبوط نہیں ہے ،ہمارا مورل فائبر کافی کمزور ہے ،اور ہم اس پر مار کھا جاتے ہیں۔جب چھٹی اور ساتوں ترمیم بھی ہو ئیں تھیں تو اس وقت بھی ملک میں ایک ہیجان برپا تھا پی این اے کی تحریک چل رہی تھی اور اس تحریک کے دوران یہ ترامیم کی گئیں جن کے نتیجے میں سردار اقبال کو گھر جانا پڑا وہ ایک نامور گھرانے کے ایک نامور وکیل بھی تھے اور ان کا ریکارڈ بہترین تھا لیکن بہر حال تحریکیں تو آج بھی چل رہی ہیں اور تحریکیں چلانے والی قوتیں بھی وہیں ہیں جو کہ اس وقت تھیں لیکن شاید آج اتنی مضبوط نہیں ہیں ،کیونکہ شاید آج مالی حالات بہت خراب ہیں اور کشکول لیے مارے مارے پھرتے ہیں ،لگتا ہے کہ آنے والے دن مشکل ہو ں گے کیونکہ ہمارا ما ئند سیٹ ہی قرضوں پر چلانے والا بن چکا ہے ،اس روش کو ترک کریں،آئین کو آئین رہنے دیں،اس قوم کو کوئی شخصیت نہیں ادارے ہی بچا سکتے ہیں شخصیات کی بجائے اداروں کو ترجیح دی جائے ،بہر حال جس قسم کی ترمیم حکومت کرنا چا ہ رہی ہے یہ ترمیم زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن