گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

ملکی سطح پر بدزبانی اور بدکلامی کو قابل فخر سمجھنے والے غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی افراد کا نئی نسل کے اخلاق کو بگاڑنے میںانتہائی گھنائونا کردار ہے ، جب کہ جسم اور اس کے دیگر اجزاء میں زبان ہی ایک ایسا عضو ہے جو بہت  محتاط رہ کر استعمال کرنے کی  محتاج ہے ،مثل ہے کہ ’’ پہلے تولو پھر بولو‘‘ جس طرح انسان کے اعضاء سے سرزد ہونے والے اعمال و افعال قابلِ مواخذہ ہیں اس طرح بد زبانی قابل مواخذہ عمل ہے ، اللہ تعاالیٰ کے ہاںزبان سے نکلے الفاط و کلمات اور اقوال کی بازپرس ہوگی ، قرآن و سنت میں بے شمارمقامات پر شرع واضح اور صاف دلائل اس بات پر شاہد ہیں کہ انسان اپنی زبان سے جو بات بھی کہتا ہے یا نکالتا ہے اس کا معاملہ بڑا سنگین ہے،زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا ، لیکن ہر بات نامہء اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور روز محشر ہر بشر اپنی باتوں کا جوابدہ ضرور ہو گا۔
ریاست کے معاملات راز داری کے متقاضی ہوتے ہیں خاص کر ایسی شخصیات جو کہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکی ہوں، ان کے قومی کردار کا تقاضا ہے کہ وہ ملک کے اندرونی معاملات کو راز سمجھ کر افشاں کرنے سے گریز کریں ،  جب کوئی راز دار فتنہ برپا کردے تو راز دار کی دشمنی ریاست کو بڑا نقصان پہنچاتی ہے ، ہندئووں کی مقدس کتاب رامائن میں راون کی بابت درج ہے کہ راون نے رام کو لنکا کے قلعے کی تسخیر کا بھید بتا دیا تھا ، جب سے یہ ضرب المثل معرض وجود میں آئی کہ ’’ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ‘‘اندرون خانہ راز کسی منہ پھٹ کو معلوم ہوں تو وہ بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔
جھوٹ ،فریب اور گالی کی سیاست نے ریاست کو عالمی سطح پر بدنام کرنے اور ملکی سا  لمیت کو خطرے سے دو چار کر رکھا ہے، رواں ہفتے عمران خان نے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر برائے آزادی ججز اور وکلاء کے پاس ایک فوری اپیل دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میںآئینی ترمیم کا مسودہ قانون کی حکمرانی کے لئے خطرہ ہے ، عمران خان نے یہ اپیل جو کہ فوری نوعیت کی ہے ، وہ ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کے سی،تاتیاناایٹ ویل اور جینیفر رابنسن کے ذریعے  دائر کی ہے ، ان وکلاء کو عمران خان نے جو ہدایات پہنچائی ہیں ان کے تحت اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی سطح پر سماجی مقاصد کی وکالت کرنے والی تنظیموں سے رابطے کرنا بھی شامل ہے ۔
عمران خان کا پاکستان کو بدنام کرنے کا یہ پہلا قدم نہیں ہے، اس سے پہلے بھی انگلینڈ کی اخبار میں مضمون اور عالمی اداروں کو ان کی جانب سے اور ان کی جماعت کی طرف سے بار ہا متعدد اور مختلف طریقوں سے ملک کو بدنام کرنے کے حربے استعمال کئے گئے ہیں جو کہ کسی طور بھی ملکی سا  لمیت اور استحکام کے لئے بہتر نہیںہیں  ، عمران خان اور ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں ہوتے ہوئے بھی مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے عالمی سطح پر ملک کے اندرونی معاملات کو اچھال کر ملک دشمنی کے مرتکب ہوئے ہیں ، فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لئے ایوان صدر میں کل جماعتی کانفرنس میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے شرکت نہ کر کے ثابت کیا کہ وہ صہیونی لابی اور گولڈ سمتھ خاندان کی ناراض نہیں کر نا چاہتے ، دوسری بات یہ کہ اگر عمران خان کسی بھی اعلیٰ سطح پر، میٹنگ یا کانفرنس میں اسرائیل کے خلاف  بات کرتے ہیں، تو مغربی فنڈنگ سے محروم ہو نے کے خوف کے ساتھ امریکی اور برطانوی ویزے کے مسائل سے دوچارہوجائیں گے ، نیز یہ کہ بیرون ممالک ان کی پارٹی کے مفرور لوگ جو کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلا کر اپنی پارٹی کے لئے ہمدردیاں سمیٹتے ہیں، ان کی حمایت اور ہمدردی سے محروم ہونے کے ساتھ وہ ا ن ممالک سے نکالے جاسکتے ہیں ۔
عمران خان اور ان کے پارٹی رہنما ئوںکا فلسطین کے بارے میںپارٹی منشور ہے کہ کسی بھی طور پر فلسطین کی حمایت نہیں کرنی ،مارچ میں قومی اسمبلی  کے اجلاس میں فلسطین پر اسرائیلی جنگ کے خلاف مذمتی قرار داد کی پی ٹی آئی نے حمایت نہیں کی تھی ، اجلاس کے دوران اسمبلی میں اسد قیصر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’ فلسطین کے مسئلے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں اگر کوئی فلسطین کے لئے قراداد پاس کرنا چاہتاہے تو کرے ، ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں ، ایوان صدر میں منعقدہ فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لئے کانفرنس میںتحریک انصاف کی غیر شمولیت کو ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے  ناپسند کیا حتیٰ کہ پی ٹی آئی کی حلیف جماعتوں مجلس وحدت مسلمین اور جماعت اسلامی  نے تحریک انصاف کی عدم شرکت پر حیرت کا اظہار کیا ۔
بانی پی ٹی آئی کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احتجاج اور انتشار کی سیاست میں محبوس ہیں اور اس کیفیت سے اپنی ذات کو نکالنے کے بجائے مزید شدت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جب کہ سیاست میں عوام کے مسائل کو ترجیحی بنادوں پر حل کرنے کی حکمت عملی اپنانے کے ساتھ ملکی معیشت و سا  لمیت کو اولیت دینا اہم عنصر ہے ، موجودہ حالت میں ملکی معاملات کو اغیار کے سامنے اچھالنے سے نہ قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ملک کی ،جب کہ ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے ، معیشت کو در پیش چیلنجز کے علاوہ  ملک کے دفاع کو لاحق خطرات، امن و امان، انصاف ، قانون سازی ، پارلیمانی امور ، صحت ، تعلیم اور روزگار کے مسائل کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اناء اور تکبر میں مبتلا ہوکر گھر کے بھیدی بن کر لنکا ڈھانے کی خواہش کسی طور پر سیاست نہیں اور نہ ہی اسے دور اندیشی کہا جا سکتا ہے ، تقاضہء وقت ہے کہ سیاسی مغالطوں ، جمہوری مبالغہ آرائیوں ، منافقتوں ، ریاکاریوں اور جمہوری سوچ سے منحرف ہوکر اغیار کے آلہ کار نہ بنیں ، ملک اور عوام کے ساتھ وفادار ی کا تقاضہ ہے کشیدگی اور محاز آرائی کو ختم کر کے اجتماعی طور پرپارلیمنٹ میں اپنے معاملات مل بیٹھ کر حل کریں، جس کے لئے عوام نے منتخب کیا ہے ۔   
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن