صاحب طرزشاعر کالم نگار پروفیسر ناصر بشیر نے گزشتہ مہینے لاہور سے اسلام آباد جانے کیلئے موٹر وے سے سفر کیا تو واپسی پر فیس بک دوستوں کو مشورہ دیا کہ اچھی اور سستی چائے یا ڈرنکس کی ضرورت ہو تو موٹر وے کے کسی انٹر چینج سے تھوڑا اتر کر کسی ڈھابے کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں تو فائدے میں رہیں گے۔ دوستوں نے ان کی رائے بہت پسندکی۔ اب جب پنجاب فوڈ اتھارٹی نے مسافروں کو معیاری خوراک کی فراہمی کا مشن جاری رکھنے کے لیے موٹرویز سروس ایریاز کی چیکنگ کی ہے تو بہت کچھ سامنے آیا ہے اور اس بہت کچھ میں یہ بھی شامل ہے کہ۔
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے۔۔۔ اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا۔
پنجاب حکومت کے حکم اور ڈی جی فوڈ اتھارٹی کی ہدائت پر فوڈ سیفٹی ٹیموں نے موٹر ویز پر واقع884فوڈ پوائنٹس کی چیکنگ کی جس میں سے5معروف ریسٹورنٹ بند کئے گئے،ایک پر مقدمہ درج ہوا ، 132کو 25لاکھ 75ہزار کے جرمانے عائد اور682کو اصلاحی نوٹس جاری کرکے ایک من ناقص استعمال شدہ آئل اور 7من سے زائد ایکسپائر سنیکس اور بیورجز تلف کردی گئیں۔ جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق ایکسپائر اشیاء برآمد کرنے پر اور انتہائی لازم ریکارڈ کی عدم موجودگی پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔ ایکسپائر کولڈ ڈرنکس، سنیکس اور مختلف کنفیکشری آئٹمز کو فروخت کے لیے ریکس پر رکھا پایا گیا، گندے فنگس زدہ فریزر میں اور صفائی کے انتہائی ناقص انتظامات، نان فوڈ گریڈ برتن استعمال کیے جارہے تھے۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی عاصم جاوید کے مطابق موٹرویز کے ساتھ، لاری اڈوں،بس سٹینڈز،ریلوے اسٹیشن، جی ٹی روڈپر موجود فوڈ پوائنٹس، ٹک شاپس کی بھی چیکنگ کی جا رہی ہے۔ قوانین کے مطابق فوڈ پوائنٹس پر فروخت کے لیے موجود تمام تر اشیاء کا پنجاب فوڈ اتھارٹی سے منظور ہونا لازم ہے۔ ناقص غیر معیاری اشیاء خورونوش کا استعمال مختلف موذی امراض میں مبتلا کرسکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ خوراک کا کاروبار کرنے والے صرف پنجاب فوڈ اتھارٹی لائسنس یافتہ سپلائر سے منظور شدہ پروڈکٹس خریدیں۔موٹر وے پر تو ایسا کب سے ہو رہا ہے اب سوشل میڈیا پر ناصر بشیر جیسے حساس لوگوں کے تبصروں کے بعد شائد متعلقہ اداروں کو بھی ہوش آیا ہے اور اب ہدائت کی گئی ہے کہ موٹرویز M1,M2,M3پر واقع فوڈ پوائنٹس خوراک کے اعلی معیار کو یقینی بنائیں۔یہ تو موٹر وے کا حال ہے۔ پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں کی حالت کا اندازہ دو تین دنوں میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایات پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ڈی جی فوڈ اتھارٹی کے حکم پر فوڈ سیفٹی ٹیموں کا جگنہ سنگھ اور ارزانی پور گاؤں میں گرینڈ آپریشن کے دوران 3400لٹر تیار جعلی ددودھ تلف کر کے مقدمات درج کروا دیے گئے۔ مختلف کارروائیوں کے دوران 2سپلائر ٹینکر، 48کلو گھی، 45کلو پاؤڈر، چلر، ڈرم، پلنجر، مکسنگ مشینیں، پمپ اور وزن کانٹے ضبط کر لی گئیں۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے بتایا کہ پاؤڈر اور ممنوعہ کیمیکلز کی ملاوٹ سے تیار دودھ تلف کر کے تمام مال ضبط کر لیا گیا۔ پانی میں پاؤڈر، کیمیکلز اور کھلا گھی شامل کر کے دودھ نما سفید گاڑھا محلول تیار کیا جا رہا تھا۔ جعلی دودھ میں گاڑھا پن اور فیٹ کو پورا کرنے کے لئے سستا ناقص پاوڈر اور گھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے بتایا کہ صفائی کے ناقص انتظامات، کیڑے مکوڑوں کی بھرمار اور دیواروں پر جالے، فنگس پائی گئی۔ موقع پر کیے گئے ٹیسٹ فیل ہونے پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔تیار جعلی دودھ کو لاہور کی مختلف سوسائٹیز اور ملک شاپس پر سپلائی کیا جانا تھا۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی کا کہنا تھاکہ فوڈ سیفٹی ٹیموں کی بروقت کارروائی نے بڑے پیمانے پر جعلی دودھ کی ترسیل ناکام بنا دی۔ ایک اور کارروائی میں جعلی کولڈ ڈرنکس کا گھناؤنا دھندہ کرنے والا مافیا پکڑ لیا گیا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر فوڈ لاہور شرجیل شاہد نے ٹیموں کے ہمراہ شالیمار کے علاقے میں واقع جعلی یونٹ پر چھاپہ مار کارروائی کے دوران 300لٹر کیمیکلز کا محلول، ایک من تیار کولڈ ڈرنکس، ممنوعہ فلیور، کھلے ناقص رنگ تلف کر دیے۔ فلنگ مشین، کمپریسر مشین، واٹر ٹینک اور 2سلنڈر ضبط کر کے ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج کروا کے موقع سے 3 ملزم گرفتار کر لیے گئے۔ ویجیلنس ٹیموں کی خفیہ اطلاع پر بروقت کارروائی عمل میں لائی گئی۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی کے مطابق کھلے رنگ، کیمیکلز اور غیر فلٹر شدہ پانی سے جعلی بوتلیں تیار کی جا رہی تھیں۔معروف برانڈز کی جعلی لیبلنگ لگا کر مضر صحت بوتلیں سپلائی کے لیے تیار کی گئیں۔ یونٹ میں صفائی کے ناقص انتظامات، گندا بدبودارماحول، جالے لگی دیواریں اور مکھیوں کی بھرمار پائی گئی۔ یہ مثالیں مشتے از خروارے کے مصداق ہیں۔خاتون وزیر اعلی پنجا ب نے اپنے صوبے کے عوام کی بہتری کیلئے متعلقہ وزارت اور حکام کو متحرک کیا تو یہ سب کچھ بھی دیکھنے کو ملا لیکن خدشہ ہے کہ ڈھاک کے وہی تین پات والا معاملہ نہ ہو۔ کچھ گرفتاریاں ، کیس عدالتوں میں ، ضمانتیں اور پھر سے وہی روش۔
اک زندگی عمل کے لئے بھی نصیب ہو
یہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی
سچ یہ ہے کہ کچھ انتظامی اور کچھ عدالتی نظام کی بے ثمری نے سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔تجاوزات ختم کرنے کی مہم برسو ں سے ہمارے سامنے ہے۔ بازار میں تہہ بازاری کے ٹرک پہنچتے ہیں۔ ہاہاکار مچتی ہے۔ ریڑھیاں ٹرکوں میں ، شام کو لے دے کر اگلے دن پھربازار کے وہی مناظر۔اب اگر وزیر اعلی معاشرے کی بنیادی قباحتوں کوختم کرنے کا عزم رکھتی ہیں تو پھر معاشرتی جرم ملاوٹ تجاوزات وغیرہ میں جو پکڑے جا رہے ہیں ان کونشان عبرت بنانے تک تعاقب بھی کریں۔ آج کے عوام بہت بدل چکے ہیں وہ رسمی کارروائیوں کی بجائے برائی کو انجام تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جعلی اور مقررہ تاریخ استعمال کے بعد فروخت کی گئی اشیا کے استعمال سے ایک طرف عوام بیمار ہو کر صحت کے ساتھ مالی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہسپتالوں میں بیماروں کی تعداد بڑھنے سے طبی بحران میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر مزاج میں تلخیاں مختلف جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں اور مار کٹائی کے کیس بھی بڑھ جاتے ہیں۔یہ اتنی تکلیف دہ صورت حال ہے کہ ہسپتالوں میں عام علاج معالجے کے ساتھ ایک الگ شعبہ میڈکو لیگل کا قائم کرنا پڑتا ہے۔میڈیکو لیگل سے یاد آیا کہ جہاں کچھ اچھا ہونے لگے اس کا تذکرہ بھی کیا جائے :جنرل ہسپتال کی انتظامیہ نے میڈیکو لیگل کیسز ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے اور متاثرہ افراد کو ایم ایل سی کے بروقت اجراء کیلئے کاؤنٹر ایمرجنسی سے ہسپتال کی چار دیواری کے اندر ھی (فرنزاک ڈیپارٹمنٹ) پوسٹ مارٹم عمارت کے ساتھ منتقل کر دیا ہے جہاں 24 گھنٹے ایم ایل سی کرنے کے لیے ڈاکٹرز و دیگر ملازمین ڈیوٹی پر موجود ہوں گے۔ اس سلسلے میں ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر فریاد حسین نے کہا کہ شعبہ ایمرجنسی میں مریضوں کا بے تحاشہ رش اور ایم ایل سی کے لیے آنے والے لوگوں کے ہجوم سے ہیلتھ پروفیشنلز کواکثر مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور بعض اوقات لڑائی جھگڑے جیسے ناخوشگوار واقعات پیش آتے جس سے نہ صرف شعبہ حادثات میں آنے والوں کے علاج معالجے میں تعطل کا باعث بنتے تھے بلکہ سیریس مریضوں کے لیے خطرہ سے کم نہیں تھے۔اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے پولیس خدمت کاؤنٹر کو ایمرجنسی سے منتقل کرنا پڑا۔ ڈاکٹر فریاد حسین نے واضح کیا کہ ایم ایل سی جاری کرنے والے ڈاکٹر کو زخمی کی ضربات کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کے لیے انتہائی پر سکون ماحول کی فراہمی ضروری ہے۔ تمام قانونی قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم ایل سی جاری ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹرز کو باقاعدگی سے ٹریننگ بھی کروائی جاتی ہے پی جی ایم آئی کے فرانزک ڈیپارٹمنٹ کے انچارج تمام ڈاکٹرز کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے علاوہ ایم ایل سی کا بھی جائزہ لیتے ہیں تاکہ کسی سائل کے ساتھ نا انصافی نہ ہو اور مظلوم کو بروقت انصاف مل سکے۔ڈاکٹر فریا د حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اے ایم ایس ایڈمن ڈاکٹر عدنان مسعود کو روزانہ کی بنیاد پر ایم ایل سی کاؤنٹر کا دورہ کرنے کا پابند بنایا ہے تاکہ کسی کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔ معاشرے کے ان دونوں مناظر کو دیکھ کر نظیر اکبر آبادی کا آدمی نامہ یاد آتا ہے۔۔
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی پہ تیغ کو مارے ہے آدمی
٭…٭…٭
پنجاب فوڈ کے چھاپے، جنرل ہسپتال اور میڈیکو لیگل کیسز
Oct 13, 2024