گونگے‘ بہرے اور اندھے

Oct 13, 2024

ناصر نقوی۔۔۔ جمع تفریق

حضرت انسان نے،، انسانی حقوق،، کا پرچار کر کے اپنے آ پ کو ہی نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کا دعویٰ تو ضرور کیا لیکن وہ ،،گرگٹ،، کی طرح رنگ بدل کر موقع پرستی سے باز نہیں آ تا،کیونکہ اسی میں اس کے مفادات ہیں۔ واویلا دنیا بھر میں یہی ہے کہ سب انسان برابر ،حقوق بھی مساوی لیکن حقیقت میں ترقی یافتہ ممالک کے معاملات مختلف ہیں۔ وہ ترقی پذیر ممالک کو درس انسانی حقوق دیتے ہیں ،پھر کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک کو اپنی طاقت،دھونس اور اختیارات سے دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، امریکہ بہادر سب سے بڑی مثال ہے، دنیا سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا تقاضا کرتا ہے لیکن اپنے لیے’’ من بھایا،، سودا کر لیتا ہے، بادشاہت اور آ مریت بھی صرف ان کی قبول ہے جہاں مفادات کو خطرہ نظر آ ئے ورنہ سب سے بڑے حقوق انسانی کے علم بردار وہی ہیں ،اسرائیل امریکی سرپرستی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کرے یا بھارت کشمیر میں ظلم و بربریت، سب جائز۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک ہی نہیں، اسلامی ریاستیں بھی مذمت اور قرارداد پاس کرنے سے زیادہ کچھ کرنے کو تیار نہیں، انسانیت کا قتل عام جاری انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور انسانی حقوق کے ٹھیکے دار گونگے، بہرے اور اندھے کا کردار ادا کرتے ہوئے ،،خاموش تماشائی،، بنے ہوئے ہیں سب سے بڑے عالمی ادارے اقوام متحدہ کی قراردادیں نہتے مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے موجود لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صرف اس لیے کہ ٹھیکیداروں کے ظالموں سے مفادات وابستہ ہیں، غریب بے یار و مددگار کشمیری اور فلسطینی بھلا انہیں کیا دے سکتے ہیں لہذا انکے گھر مسمار کر دیے جائیں۔ بچوں، بوڑھوں ،خواتین کو بموں سے اڑا دیا جائے، ہسپتالوں بستیوں اور شہروں کے شہر قبرستان بنا دیے جائیں تب بھی کوئی بات نہیں ،یہاں بسنے والے نہ انسان ہیں ،نہ ہی انسانی حقوق کے مستحق، غزہ اور لبنان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں ،یوکرائن کو روس سے لڑا دیا اسرائیل اپنے’’ توسیع پسند،، منصوبے کے تحت فلسطین پر چڑھ دوڑا اور اب لبنان میں گھس گیا۔ غزہ لہو لہو، اسرائیلی جارجیت کا 374واں روز آ گیا ،دبی دبی آوازوں میں اسرائیل کو عالمی مجرم قرار دے کر عالمی عدالت لے جانے کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے لیکن امریکہ بہادر کو اسلحہ کی سپلائی اور اسرائیلی پشت پناہ پر کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی جرات کسی میں نہیں ،56 اسلامی ممالک اور ان کی تنظیم او۔ آ ئی۔سی بھی خاموش۔ لیکن ایران ناقابل فراموش نقصان اٹھانے کے باوجود اکیلا آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر کھڑا ہے اس لیے کہ اسے اللہ پر اور باقی تمام کو امریکہ پر بھروسہ ہے، کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں، کہ یہ گونگے، بہرے اور اندھے اپنے مستقبل کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ کہنے والے کہہ گئے ہیں کہ ایک آ دم خور جانور اس قدر خطرناک نہیں ہوتا ،جتنا کہ ایک مفاد پرست، مطلب خور انسان خوفناک ہوتا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ،کہ صرف اپنے لیے جینا بنیادی اور اصولی حق ہے ،ضرور جییں، لیکن ایسا تو جانور بھی کرتا ہے آ پ تو اشرف المخلوقات ہیں لہذا کم عقلی کے راستے پر چلنے سے پہلے ادب آ داب، ایمان و بیان اور تابع فرمانی کا راستہ اختیار کرو، جن انسانوں سے مدد اور دعا لینی ہے ان سے ٹکراؤ نہیں ،کیونکہ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آ نا،
’’آ دم زادے ،،جمہوریت اور انسانی حقوق،، کے حوالے سے خود ضابطے اور قاعدے ترتیب دیتے ہیں اور وقت ضرورت خود ہی ان سے تجاوز کر کے بغاوت کی راہ ہموار کر دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گونگے، بہرے اور اندھے ہر سطح پر پائے جاتے ہیں وجہ وھی،، نظریہ ضرورت،، ہے جسے،، ہم اور آ پ ،،بار بار دفن کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اسے موقع پرستی سے جوڑا جاتا ہے ہمارے ہاں بھی ناپسندیدگی کی بنا پر ایک سے زیادہ مرتبہ نہ صرف دفن کیا گیا بلکہ کئی مرتبہ خاتمے کا اعلان بھی ہوا تاہم یہ ایک ایسا زندہ معجزہ ہے جو کسی وقت بھی مد مقابل کھڑا نظر آ تا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اور قومی سطح پر بھی، اس سے چھٹکارا نہیں مل رہا ،دنیا کا تضاد ملاحظہ فرمائیں گونگے ،بہرے اور اندھے سپیشل کلاس کے کھاتے میں خصوصی مراعات کے مستحق ہوتے ہیں لہذا جو نہیں اس معذوری میں مبتلا، وہ اپنی خصوصی،، پرفارمنس،، سے تمام تر مفادات حاصل کر لیتے ہیں۔ عالمی گونگے، بہرے اور اندھے اپنے مفادات میں یہ روپ دھارتے ہیں کیونکہ اسی میں فائدہ ہے اور قومی گونگے ،بہرے وہ ہیں جنہیں ان کی صلاحیتوں اور جذبہ ،،خدمت انسانی،، میں عوام منتخب کر کے پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کے لیے بھیجتے ہیں لیکن یہ حلف،، خدمت وفاداری،، اٹھاتے ہی گونگے، بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں جنہیں یقین نہیں۔ وہ صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینٹ کے معزز ارکان کی رپورٹ دیکھ لیں اکثریت گونگے، بہرے اور اندھے ہیں اکثریت اپنی پانچ سالہ پارلیمنٹری زندگی میں اسمبلی فلور پر گونگے، بہرے اور اندھے رہ کر تمام تر مرا عات حاصل کرتے ہیں۔ 10 سے 20 افراد بولتے ،لڑتے، جھگڑتے ضرور دکھائی دیتے ہیں باقی صرف اشاروں کی زبان سمجھتے ہیں۔ اسی خدمت میں کچھ وزارتیں لے اڑتے ہیں ،کچھ کو مشیر اور پارلیمانی سیکرٹری بنا کر ،موج میلہ،، کرایا جاتا ہے۔ مجھے یاد آ یا کہ ایک مرتبہ ان ارکان اسمبلی کے حوالے سے معروف کالم نویس منو بھائی نے اپنے اخباری کالم،، گریبان،، میں لکھ دیا کہ جنہیں عوام اپنے ووٹوں کی طاقت سے زبان دے کر اسمبلی میں بھیجتے ہیں وہ وہاں گونگے، بہرے ہو جاتے ہیں۔ کالم کا چھپنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں کہرام مچ گیا ایسا لگا جیسے کالم،، گریبان،، نہیں تھا منو بھائی نے ارکان اسمبلی کا ،،گریبان،، پکڑ لیا۔ تحریک استحقاق پیش ہوئی ،نوٹس جاری ہوئے، ایڈیٹر عباس اطہر اور منو بھائی کو جواب طلبی کے لیے بلایا گیا دونوں حضرات مقررہ تاریخ پر پیش ہوئے۔ ارکان کا مطالبہ تھا منو بھائی اپنے الفاظ پر،، معافی،، مانگیں منو بھائی اور عبا س اطہر کا جواب تھا اسمبلی حاضری رجسٹر اور ایوان کی کارروائی کے ریکارڈ کے مطابق ہماری بات درست ہے کہ ایوان کی اکثریت کسی ،،قانون سازی اور بحث،، میں حصہ نہیں لیتی ،چند ارکان بولتے ہیں باقی برسوں گونگے، بہرے بیٹھ کر صرف مرا عات لیتے ہیں اسپیکر نے بات بگڑتی دیکھی تو ذمہ داری سے برابری پر صلح سمجھوتہ کرا دیا کہ دونوں جانب معزز شخصیات ہیں امید ہے کہ آ ئندہ ایک دوسرے کے استحقاق کا خیال رکھیں گے، دوسرے روز منو بھائی نے لکھا ،میں نے ارکان اسمبلی کی خاموشی پر انہیں گونگے، بہرے لکھا تو تحریک استحقاق پیش ہو گئی لیکن جواب طلبی بھگت کر باہر نکلا تو مجھے یقین آ گیا کہ ان کا استحقاق سچ مچ مجروح ہوا۔ اسمبلی کے مرکزی دروازے کے باہر ،،گٹر،، کا،، ڈھکن،، بھی غائب تھا مجھے احساس ہوا کہ میں نے انہیں گونگے، بہرے لکھ کر ناانصافی کی، یہ تو،، اندھے،، بھی ہیں پھر تحریک استحقاق دوبارہ پیش نہیں ہوئی، شاید انہوں نے یہ قول سن رکھا ہوگا کہ لوگوں کو راضی رکھنا ناممکن اور انکی زبانوں کو خاموش رکھنا اس سے بھی مشکل ہے، ان زبانوں سے تو انبیاء کرام تک محفوظ نہیں رہے ہماری کیا اوقات؟ یقینا وہ یہ راز بھی جانتے ہوں گے کہ اگر زبان نہیں رک سکتی تو صحافی کا قلم کیسے روکا جا سکتا ہے؟ لہذا بقول شخصے دوسرے روز ارکان اسمبلی ایک دوسرے کو ،،منو بھائی ،،کے کالم کے حوالے سے یہ کہتے پائے گئے،، ہن آ رام اے؟"
٭…٭…٭

مزیدخبریں