کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کی بدترین شکست پاکستانی ٹیم کے کھاتے میں۔
اپنا گرائونڈ ہو اور اپنے ہی گھر میں ایسی درگت بننا افسوس کی بات ہے۔ ملتان میں جس طرح انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستانی کرکٹ اور کرکٹروں کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کیا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’تھوتھا چنا باجے گھنا‘‘ والی بات درست ہے۔ آج سب نے چپ سادھ رکھی ہے‘ کل تک جو کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کی شان میں قصیدے پڑھتے تھے‘ دیکھ لیں ’’کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ ہاں البتہ ایک ریکارڈ ضرور بنا کہ انگلینڈ کی ٹیم نے 800 رنز بنائے اور پہلی اننگز میں پاکستان کے 500 رنز کا تار پور بکھیر کر رکھ دیا۔ یوں ڈںیڑھ سو سال کی تاریخی شکست ہماری کرکٹ ٹیم کے حصہ میں آئی جہاں ایک سے بڑھ کر ایک فاتح عالم‘ رستم زماں اور خان اعظم جیسے نایاب ہیرے ہیں جو اب چلے ہوئے کارتوس نظر آرہے ہیں۔ اب ایک بارپھر پی سی بی میں چہل پہل نظر آرہی ہے۔ کچھ چہرے بدلے جا رہے ہیں‘ کچھ نئے چہرے آرہے ہیں۔ مگر کہتے ہیں ناں کہ پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی ہر سطح پر زیرو نظر آتی ہے۔ کار کردگی کے مقابلے میں جب ذاتی تشہیر بڑھ جاتی ہے تو وہ کھلاڑی نہیں اشتہاری ہیرو بن جاتے ہیں۔ وہ خود کو سپرسٹار سمجھنے لگتے ہیں۔ یوں کھیل کی نسبت انکی توجہ دوسری چیزوں کی طرف زیادہ ہو جاتی ہے۔ میک آرتھر بھی اس غیرضروری تشہیر پر برہم ہیں۔ اب اتنی بڑی شکست کا بوجھ کون اٹھائے گا۔ کس پر الزام دیں‘ کون یہ بوجھ برداشت کر سکتا ہے۔ اگر خرچہ کروڑوں میں ہو اور حاصل وصول اتنی بری شکست ہی ہو تو پھر بہت کچھ سوچنا پڑیگا۔ صرف قذافی سٹیڈیم کی تعمیر نو اور توسیع سے کرکٹ بورڈ کیا نتیجہ حاصل کر سکتا ہے‘ جب کھیلنے والوں کی اپنی تعمیر و مرمت کی ضرورت سٹیڈیم سے کہیں زیادہ ہے۔ بری حالت تو پی سی بی کی بھی ہے۔
٭…٭…٭
آئینی ترمیم پر نمبر گیم جاری‘ حکومت پرامید‘ بلاول کی مولانا سے ایک اور ملاقات
پیپلزپارٹی کی یہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف وہ آئینی ترامیم پر حمایت حاصل کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمان کو ’’جپھے‘‘ ڈال رہی ہے‘ بلاول نہایت گرم جوشی سے فضل الرحمان کے ساتھ بغلگیر ہو کر انکی حمایت حاصل کرنے کیلئے صدقے واری جارہے ہیں‘ دوسری طرف خورشید شاہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑی شدومد سے اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ آئینی ترمیم کے مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا۔ اب معلوم نہیں سچ کون بول رہا ہے اور جھوٹ کون۔ شاید یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ آئینی ترمیم میں حمایت حاصل کرنے کا سہرا بالآخر بلاول کے سر باندھا جائے کہ انکی پے در پے ملاقاتوں اور کوششوں کی وجہ سے مولانا رام ہوئے اور ترمیم کی حمایت کی۔ ایک اور فریق پی ٹی آئی والے تو ابھی تک نیم رضامندی پر بھی آتے نظر نہیں آرہے مگر وہ بھی مولانا کے ناز اٹھا رہے ہیں کہ کبھی تو حسینہ مان جائے گی۔ اس لئے ان کی ہر بات پر تصویر بنے سر ہلاتے اور ہاں ہاں کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ابھی تک وہ بھی مولانا کو زیردام لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومتی ارکان تو بڑی شدومد سے ظاہر کر رہے ہیں کہ انکے پاس نمبر پورے ہیں۔ آگے رب جانے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ پچھلی بار بھی ہلچل تو خوب مچی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اب تو دیکھنا ہے کہ اگر مولانا کے بغیر بھی نمبر واقعی پورے ہوئے تو پھر سمجھ لیں کہ مولانا کی چڑھتی ہوئی گڈی کسی بھی وقت بوکاٹا ہو سکتی ہے۔ اس لئے سیانے کہتے ہیں کہ فیصلہ بروقت کرنا چاہیے‘ ایں آں و مہلات میں وقت ضائع کرنے کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اب کہیں مولانا بھی گاڑی مس نہ کر دیں۔ دو کشتیوں کے سوار کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ویسے بھی گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ ادھر پی ٹی آئی والے بھی کچھ پریشان سے ہی نظر آتے ہیں۔
٭…٭…٭
کالعدم پی ٹی ایم سے بات چیت کیلئے جرگہ‘ حکومت کمزوری نہ دکھائے۔
شوق سے کالعدم پی ٹی ایم سے بات چیت کریں‘ جرگہ بلائیں‘ ان کی بلائیں لیں‘ ان کو بتائیں کہ آپکی نارضگی نے تو ہماری جان نکال دی ہے کیونکہ انکی حمایت کرنے والے وہ ہیں جنہیں ان سے اپنی جان کا خوف ہے اور وہ انہیں جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہتے ہوئے ماہانہ بھتہ دیتے ہیں۔ انکے مسلح غنڈوں کی اجازت کے بغیر اپنے ہی علاقوں میں آجا نہیں سکتے‘ کئی روز سے جمرود کے مقام پر پاکستان سے افغانستان کو ملانے والی سڑک پر آنے اور جانے والے سینکڑوں ٹرک ٹرالے کئی دنوں کھڑے ہیں۔ یہ پی ٹی ایم کے غنڈے احتجاجی کیمپ لگا کر ہر گاڑی سے ہزاروں روپے وصول کرکے آنے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اب یہ کاروبار بنا لیا ہے۔ انہوں نے ٹرانسپورٹروں سے جبری بھتہ لینا شروع کر دیا ہے۔ کہاں ہے خیبر پی کے کی رٹ اور پولیس۔ سڑک تو کلئیر کرا نہیں سکتے اور چلے ہیں جرگہ کرنے۔ اگر ہم یونہی ملک دشمن عناصر سے دبتے رہیں گے‘ انکی غنڈہ گردی کے آگے جھکتے رہیں گے تو پھر آج پی ٹی ایم ہے تو کل کیا بی ایل اے یا بی ایل ایف کے ساتھ بھی مذاکرات کیلئے ایسا ہی نرم رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی‘ ایک سے بڑھ کر ایک دہشت گرد تنظیم جن کے چندے حکم کے تحت بند کئے ہیں‘ وہ بھی کہیں شیر نہ ہو جائیں ویسے بھی جس تنظیم یا جماعت کے جلسے میں ملک دشمن نعرے لگیں‘ سکیورٹی فورسز کو برا بھلا کہا جائے، قومی پرچم لانے پر پابندی ہو، اسکی جگہ غیرملکی پرچم لہرائے جائیں‘ انکو سلامی دی جائے‘ جو ہمارے دشمن ملک کے ہیں۔ ایسے سانپوں کا سر کچلنا ہوگا نہ کہ انہیں دودھ پلایا جائے۔ ہاں اگر وہ پاکستان سے وفاداری اور حب الوطنی کا حلف لیں تو پھر انکے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے تو ویسے بڑے بدرمنیر اور اسد قیصر ہمایوں قریشی بن کر بڑھکیں لگاتے ہیں‘ وہ اپنے صوبے میں ایسے عناصر پر قابو نہ پا سکے۔ الٹا شنید یہ ہے کہ وہ بھی بھتہ دیتے ہیں تاکہ کالعدم پی ٹی ایم کے شر سے محفوظ رہیں۔جو بھارت اور افغانستان کے اشاروں پر پاکستان میں شر پسندی پھیلا رہی ہے۔
٭…٭…٭
ایران پر حملے کی دھمکی‘ جو بائیڈ ن نے فون پر نیتن یاہو کو برا بھلا کہا۔ امریکی صحافی کا دعویٰ۔
حالانکہ اسرائیلی وزیراعظم اس سے بھی زیادہ بے عزتی کے مستحق ہیں‘ ان کا پیٹ گالیوں سے کہاں بھرا ہوگا۔ایسا ہوتا تو وہ کب کے دنیا بھر سے پڑنیوالی گالیوں کے بعد سدھر چکے ہوتے۔ ویسے بھی امریکہ تو اسرائیل کا ان داتا اور پالنہار ہے۔ اسکی تو گالیاں بھی نیتن یاہو کو اسکی امداد کی طرح میٹھی ہی لگتی ہوں گی۔ ویسے آفرین ہے امریکہ کی دوغلی پالیسی پر کہ ایک طرف گالیاں دیتا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کو مالی امداد اور اسلحہ کی سپلائی جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اعلان بھی کرتا ہے کہ اسرائیل کا دفاع ہم کرینگے۔ اسرائیل جارح ریاست ہے‘ اس کو اگر کوئی منہ توڑ جواب دے تو صاف ظاہر ہے امریکہ اس کا مقابلہ کرے گا۔ اس وجہ سے اسرائیل شرابی چوہے کی طرح بدمست ہو کر دندناتا پھر رہا ہے۔ مسلم ممالک کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ غزہ کے بعد بیروت کو کھنڈر بنا رہا ہے مگر امریکہ کسی کو اسے کچھ کہنے نہیں دے رہا۔ امریکی دفاعی نظام کی وجہ سے اسرائیل پر برسنے والے میزائیلوں اور راکٹوں کی اکثریت فضا میں ہی مار گرائی جاتی ہے۔ سو میں سے چند ایک ہی اسرائیل پر برستے ہیں۔ فلسطینیوں اور لبنانیوں کے پاس ایسی کوئی حفاظتی چھتری نہیں‘ نہ کوئی انہیں بچانے کیلئے مخلص ہے۔ اب اس تمام ڈرامہ بازی کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ایران پر حملے سے باز رہنے کے لئے گالیاں دیں یا شٹ اپ کال دیں، انکی طرف سے
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
کا جواب دیا جاتا ہے۔ اسرائیل تو لاتوں کا بھوت ہے‘ گالیوں یا باتوں سے نہیں مانے گا۔ اس کا علاج صرف ڈنڈے سے ہی ہو سکتا ہے۔
٭…٭…٭