آپ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا کہا اور شرک سے منع فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں افسوس تْو بندہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے اوراطاعت دوسروں کی کرتا ہے۔ اگر تْو واقعی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوتا تو تیری دوستی اور دشمنی اسی کے لیے ہوتی۔ صاحب یقین مومن اپنے نفس اور شیطان کی پیروی نہیں کرتا کیوں کہ وہ شیطان کا شناساہی نہیں تو اسکی اطاعت کیوں کرے۔ وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اسے ذلیل کرتا ہے اور آخرت کا طلب گار ہے۔ اورجب اسے آخرت مل جاتی ہے وہ اسے بھی ترک کر دیتا ہے اور اپنے مولیٰ سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ خالصتا اسی کی عبادت کرتا ہے۔ اس نے اپنے رب کا فرمان سن رکھا ہے ’’ انہیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کریں ، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے اور ہر باطل سے اعراض کرتے ہوئے‘‘۔ اے بندو مخلوق کو شریک بنانا چھوڑ دو اور صرف اللہ تعالی کو وحدہ لاشریک مان لو۔ کیونکہ ہر شے کے خزانے اللہ ہی کے پاس ہیں۔
حضور نبی کریم رئو ف الرحیم ﷺ کا مقام مرتبہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺ کی آنکھیں محو استراحت ہوتیں اور دل پاک بیدار ہوتا آپ جس طرح آگے دیکھتے تھے اسی طرح پیچھے دیکھتے تھے۔ ہر شخص کی بیداری اس کے حال کے مطابق ہے کوئی شخص نبی کریمﷺ کی بیداری کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کوئی آپ کی خصوصیات میں شریک ہو سکتا ہے۔
آپ ایسے علم اور عمل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ علم چھلکا ہے اور عمل مغز۔ چھلکے کی حفاظت اس لیے کی جاتی ہے کہ مغز محفوظ رہے اورمغز کی حفاظت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس سے تیل نکالا جائے۔ وہ چھلکا کس کام کا جس میں مغز نہ ہو اور وہ مغز بے کار ہے جس میں تیل نہ ہو۔ علم ضائع ہو چکا ہے کیونکہ جب علم پر عمل نہ رہا تو علم بھی ضائع ہو گیا۔عمل کے بغیر علم کا پڑھنا اور پڑھانا کیا فائدہ دے گا۔
اے عالم اگر تو دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے علم پر عمل کر اور لوگوں کو علم سکھا۔ آپ فرماتے ہیں اے میری قوم تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص ختم ہو گیا ہے۔اعمال کے بغیر اقوال کی کثرت ہے ، عمل کے بغیر قول فائدہ نہیں دیتا۔ وہ تیرے حق میں نہیں بلکہ تیرے مخالف دلیل ہے وہ بے جان جسم ہے وہ ایک ایسا بت ہے جس کے نہ ہاتھ نہ پائوں اور نہ ہی اس میں پکڑنے کی صلاحیت ہے۔ تمہارے اکثر اعمال بے روح لاشے ہیں۔ روح کیا ہے ؟ توحید ، اللہ تعالی کی کتاب اور رسول اللہ ؐ کی سنت پر ثابت قدمی۔