پاک چین تعلقات اور مشکلات!!!!

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس پندرہ اور سولہ اکتوبر کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے اجلاس میں چین، روس اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے سربراہان اور نمائندے شریک ہوں گے۔ یہ ایک اہم اجلاس ہے، خطے میں موجودہ حالات کے پیش نظر مختلف ممالک کے سربراہان یا نمائندگان کی پاکستان آمد ایک اہم موقع ہے۔ پاکستان اس شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اصولی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ اس دوران ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی معمول کی کارروائیوں کو معطل کر دینا چاہیے تاکہ حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل توجہ اس اجلاس کے کامیاب انعقاد پر ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف نے اس اہم موقع پر بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقع پر احتجاج کا فیصلہ قومی مفادات سے متصادم ہے۔ یہ احتجاج کسی بھی طور ملکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتا، ہونا تو یہ چاہیے کہ پی ٹی آئی کی سنجیدہ قیادت اس فیصلے کی مخالفت کرے، احتجاج کے فیصلے سے علیحدگی اختیار کرے اور احتجاج کی حمایت کرنے والوں کو قائل کرے۔ ایک ایسا موقع جب اسلام آباد میں غیر ملکی مہمانوں کی آمد اور پھر میزبانی کا سلسلہ شروع ہو گا کیا یہ مناسب ہے کہ اس وقت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و جوان پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کو کنٹرول کرنے یا ان کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مصروف ہوں۔ ویسے تو اس وقت ملک ایسی احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کسی نے اپنے بنیادی حق کے نام پر سینکڑوں نہیں ہزاروں اور لاکھوں افراد کے بنیادی حقوق کو پامال کرنا ہی ہے تو یہ وقت ایسی کسی بھی سرگرمی کے لیے مناسب نہیں ہے۔ دشمن کو پاکستان میں معاشی استحکام ہضم نہیں ہو رہا، دشمن کو پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات ہضم نہیں ہو رہے، دشمن کو تو سی پیک تکلیف پہنچا رہا ہے، پاکستان تحریک انصاف کا کیا مسئلہ ہے، کیا پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ سی پیک منصوبے تیزی سے مکمل ہوں اور ملکی معیشت مضبوط ہو، کیا پی ٹی آئی قیادت نہیں چاہتی کہ دنیا میں پاکستان کے تعلقات مضبوط ہوں۔ ان حالات میں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین مضبوط تعلقات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جیسے چینی انجینئرز پر حملے ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد تو کوئی شک نہیں رہتا کہ دشمن کا ہدف پاکستان چین کی دوستی ہے۔ یقینا دشمن ماضی کی طرح اب بھی ناکام ہو گا۔
پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں ممالک کی دوستی کو دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تعلقات 1950 کی دہائی میں شروع ہوئے، پچاس کی دہائی سے آج تک دونوں ممالک نے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی جڑیں تاریخی اور جغرافیائی حقائق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں جب پاکستان نے چین کے ساتھ زمینی سرحدوں کے معاہدے پر دستخط کیے، یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا، جن میں دفاعی تعاون، انفراسٹرکچر اور تجارت شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کی بنیاد چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان میں انفراسٹرکچر، توانائی اور مواصلاتی شعبوں میں بہتری لانے کے لیے بنایا گیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سڑکیں، بجلی کے منصوبے اور صنعتی زونز تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے بلکہ چین کو بھی اپنی مصنوعات کی ترسیل کے لیے ایک مختصر راستہ فراہم کرتا ہے۔ دفاعی شعبے میں بھی پاکستان اور چین کے تعلقات انتہائی گہرے ہیں۔ دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں اور پاکستان کی فوجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین نے پاکستان کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کی ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے پاکستان کو جدید ترین جنگی طیارے اور آبدوزیں فراہم کی ہیں، جو پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ پاک چین تعلقات میں بہتری کے باوجود چند رکاوٹیں اور چیلنجز بھی موجود ہیں جو ان تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کبھی کبھار چین کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، کیونکہ چین اور بھارت کے درمیان بھی سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ پاکستان کی معاشی مشکلات اور قرضوں کا بوجھ بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک چیلنج ہے۔ چین پاکستان کی اقتصادی مدد کر رہا ہے، سی پیک منصوبے کے تحت بلوچستان اور دیگر علاقوں میں جاری سکیورٹی خطرات بھی ایک اہم چیلنج ہیں۔ دہشت گردی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی وجہ سے ان علاقوں میں منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا دباؤ بھی پاک چین تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے، خاص طور پر ان ممالک کی طرف سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر تنقید کی وجہ سے ہے۔ پاک چین تعلقات اگرچہ چیلنجز سے دوچار ہیں، مگر دونوں ممالک کی قیادت اور عوام کے درمیان دوستی اور تعاون کا عزم بہت مضبوط ہے۔ ان تعلقات کی اہمیت نہ صرف پاکستان اور چین کے لیے بلکہ پورے خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان اور چین کے مابین مضبوط تعلقات اور اس حوالے سے مستقبل بہتر بنانے کے منصوبوں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کو اندرونی طور پر استحکام کی ضرورت ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اپوزیشن کوئی بھی ہو سیاسی قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ ملکی مفادات کو فوقیت دے، ملکی مفادات کو اہمیت دے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقع پر احتجاج کی کال تو ریاست کو طاقت کے استعمال پر ابھارنا ہے یہ صورت حال ملک میں امن و امان کے حالات کو خراب کرنے اور پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ 
ان حالات میں وفاقی حکومت نے پندرہ اکتوبر کو پی ٹی آئی کا احتجاج روکنے کے لیے پوری طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ صوبے کی تمام پاورز کو وفاق پر استعمال کیاگیا، ڈاکٹر اسراراحمد اور حکیم سعید نے کہا تھا کہ یہ اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹ ہیں، انہوں نے دہشتگردی کی کبھی مذمت نہیں کی، انہوں نے اپنے دور حکومت میں ہزاروں کی تعداد میں دہشتگردوں کو بسایا ، ان کا کوئی بھی لیڈر دہشتگرد حملوں میں شہید ہونے والوں کے جنازے میں شرکت نہیں کرتا۔ پاکستان کی تباہی کا سامان بانی پی ٹی آئی نے مہیا کیا، بلوچستان میں کل بھی ایک واقعہ ہوا، ایک ہفتے قبل بھی واقعات ہوئے لیکن ان کا ایک ہی بیان تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے ، رہائی کے علاوہ ان کا کوئی مطالبہ نہیں، ان کے ذہنوں میں ایسے پاکستان کا وجود نہیں جس میں بانی پی ٹی آئی حکمران نہ ہو، شاندانہ گلزار نے کہا تھا کہ بانی ٹی آئی نہیں تو پاکستان نہیں، یہ اپروچ ہونی چاہیے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں مگر یہ ہر چیز کا حوالہ بانی پی ٹی آئی کو بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے پارٹی کے لوگوں نے کئی کئی جماعتیں بدلی ہوئی ہیں، جب یہ خود حکمران تھے تو انہوں نے کسی سے ملاقات کا حق دیا تھا؟ خواجہ آصف نے حکومتی موقف تو بتا دیا ہے لیکن ابھی وقت ہے پی ٹی آئی قیادت کے پاس وقت ہے کہ کم از کم اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ حکومت کے علاوہ بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور حلقوں نے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقع پر احتجاج کو نامناسب قرار دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چودہ پندرہ اکتوبر کو کیا تماشا لگتا ہے۔ کیا ہم پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے کاموں سے دور نہیں رہ سکتے۔
آخر میں نقاش کاظمی کا کلام
سکوتِ شب میں اندھیروں کو مسکرانے دے
بجھے چراغ تو پھر جسم و جاں جلانے دے
دکھوں کے  خواب نما نیم  وا دریچوں  میں
وفورِ  کرب  سے  تاروں  کو  جھلملانے  دے
جلانا  چاہے  اگر  چاہتوں  کا  سورج  بھی
بدن کے شہر کو اس دھوپ میں جلانے دے
تو  اپنے   سنگ  نما  روح   کے   سفینے  کو
غمِ  وفا  کے  سمندر  میں  ڈوب  جانے دے
مرے وجود  میں  کانٹوں کا  ایک  جنگل ہے
وہ اپنی ذات کے پھولوں میں کیوں سمانے دے
کسے خبر ہے کہ ہم  دونوں اپنے  قاتل  ہیں 
جو بے  خبر  ہیں انہیں  چیخ کر  بتانے دے
ہوں  منتظر کہ کوئی  آج   آنے  والا   ہے
بقدرِ   ذوق  در  و  بام  کو  سجانے   دے
گزرتے   لمحوں  کے  ہمراہ   ٹوٹتا  ہے   بدن
وصالِ   یار  کی  لذت  کا  بار  اٹھانے  دے
میں پتھروں کی طرح چپ نہیں اے تیشہ بدست
وہ  اور  ہوگا  تجھے  ضرب  جو  لگانے  دے
جب اپنے پاؤں میں رنجیر پڑ گئی ہے تو پھر
چلا  تو   جاتا  نہیں ، گرد   ہی  اڑانے   دے
بھٹک  رہا ہوں بگولوں کے  رنگ  میں نقاش
بدن  تو  خاک  ہوا  روح  بھی  جلانے  دے

ای پیپر دی نیشن