وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب بلاول مسعودہ ٹویٹر پر جاری ، عوام سے تجاویز  طلب 

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹرپر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات سے متعلق میثاق جمہوریت کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پی پی پی کی تجاویز پر مبنی  ہیں۔ جس میں انہوں نے کہا کہ ہم ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دیتے ہیں‘ جس میں تمام وفاقی اکائیوں کی مساوی نمائندگی ہو‘وفاقی آئینی عدالت بنیادی حقوق، آئینی تشریح اور وفاقی و بین الصوبائی تنازعات سے متعلق تمام مسائل کو حل کرے گی‘ ہماری تجویز ہے کہ ججوں کی تقرری کا عمل، جو ججوں کے ذریعے اور ججوں کے لیے ہوتا ہے‘ ختم کیا جائے، ججوں کی تقرری عدالتی اور پارلیمانی کمیٹیوں کو ضم کر کے‘ ہم پارلیمنٹ، عدلیہ اور قانونی برادری کو مساوی کردار دینے کے قائل ہیں، پی پی پی نے اپنا مسودہ کچھ مہینے قبل حکومت کے ساتھ شیئر کیا، پی پی پی نے اپنا مسودہ کچھ ہفتے قبل جے یو آئی کے ساتھ اور حال ہی میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں شیئر کیا گیا، میں عوام کی جانب سے اس ترمیم کو مزید بہتر بنانے کے لیے جائز اور معنی خیز تجاویز کا خیرمقدم کرتا ہوں،پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی اس اہم ترمیم پر سیاسی جماعتوں، بار ایسوسی ایشنوں اور سول سوسائٹی سے اپنی وسیع تر ملک گیر مشاورتی مہم کے سلسلے میں رابطے کررہی ہے، اتفاق رائے کیلئے اس وقت پی پی پی کے آئینی ترامیم سے متعلق اپوزیشن کی سیاسی جماعت جے یو آئی کے ساتھ مفید مذاکرات جاری ہیں، ہمیں امید ہے کہ ایک مشترکہ مسودہ 26ویں آئینی ترمیم کو پاس کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتفاق رائے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا۔قائداعظم نے سب سے پہلے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز پیش کی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلی مرتبہ وفاقی آئینی عدالت کی تفصیل 27 اکتوبر 1931 کو لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں پیش کی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی یہ تجویز تقریباً پی پی پی کی پیش کردہ تجویز سے مماثلت رکھتی ہے، انہوں کہا کہ قائداعظم نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے وفاقی آئینی عدالت، ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کیلئے سپریم کورٹ اور ایک فوجداری اپیل کی عدالت کی تجاویز دیں۔قائداعظم نے کہا تھاکہ کوئی بھی سوال جو وفاقی آئین سے متعلق ہو یا آئین سے پیدا ہو، اسے وفاقی عدالت میں جانا چاہئیے۔ انہوں نے ایک ہی عدالت کو ‘‘وفاقی قوانین’’ پر وسیع دائرہ اختیار دینے کی بھی مخالفت کی۔قائداعظم نے کہا کہ ‘‘میں یہ مؤقف رکھتا ہوں کہ کسی بھی شہری کو، اگر اس کے حق پر حملہ کیا جائے یا اسے چیلنج کیا جائے، ظاہر ہے کہ یہ آئین سے متعلق ہونا چاہئے۔ قائداعظم نے کہا کہ شہری کے حقوق پر حملے کا معاملہ براہ راست وفاقی عدالت میں جانے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔قائداعظم نے کہا کہ اس طرح کی حد بندی کے ساتھ، وفاقی عدالت اتنی زیادہ مصروف نہیں ہوگی‘ اور اس لئے مقدمات کو جلد نمٹایا جا سکے گا۔ قائداعظم کے مطابق اس عدالتی نظام کا ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ الگ وفاقی عدالت کی تقرری کے دوران ایسے افراد کا انتخاب کریں جو آئینی معاملات میں خاص مہارت رکھتے ہوں، تو آپ ایسا نظام قائم کریں گے جو سب سے زیادہ قابل ترجیح ہو گی۔ گول میز کانفرنس قائد اعظم نے کہا تھاکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ماہرین کا دور ہے اور ہندوستان میں ہم ابھی اس سطح پر نہیں پہنچے ہیں۔ قائداعظم صبح کے وقت آپ ہندو قانون کے ایک پیچیدہ سوال پر دلائل دے رہے ہوتے ہیں، اور دوپہر میں آپ روشنی اور ہوا اور آسانی کے معاملات پر بحث کر رہے ہوتے ہیں، قائداعظم کے گول میز کانفرنس میں آئینی عدالت کے حق میں دلائل دئیے تھے۔ اگلے دن آپ ایک تجارتی مقدمے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، اور تیسرے دن آپ شاید ایک طلاق کے مقدمے سے نمٹ رہے ہوتے ہیں، اور چوتھے دن آپ ایک ایڈمرلٹی مقدمے کی سماعت کر رہے ہوتے ہیں، قائداعظم کے گول میز کانفرنس میں آئینی عدالت کے حق میں دلائل دئیے تھے۔ یہ قائداعظم کی جانب سے عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کو کم کرنے کا حل تھا جو ان کو دیے گئے وسیع دائرہ اختیار کی وجہ سے تھا۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ قائداعظم کی تجاویز بعد میں جرمنی کے 1949 کے بنیادی قانون سے بھی مماثلت رکھتی تھیں جس نے وفاقی آئینی عدالت قائم کی۔

ای پیپر دی نیشن