اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مجوزہ آئینی ترامیم پر مشاورت کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے ترامیم سے متعلق سفارشات کی تیاری کیلئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔ ذیلی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے 2 ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کمیٹی 2 روز میں سفارشات مرتب کر کے خصوصی کمیٹی کو دے گی۔ مجوزہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا دوسرا اِن کیمرا اجلاس خورشید شاہ کی زیرصدارت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اِن کیمرا اجلاس میں آئینی ترامیم سے متعلق مسودوں پر غور کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کوئی بھی شرکت کرسکے گا، خصوصی کمیٹی کا اجلاس سترہ اکتوبر کو ہو گا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ خصوصی کمیٹی نے اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے، ذیلی کمیٹی میں کامران مرتضیٰ اور پی ٹی آئی کے 2 ارکان شامل ہیں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ ساری جماعتوں کے مسودوں میں کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے، ذیلی کمیٹی دو دنوں میں سفارشات خصوصی کمیٹی کو دے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اختلافات زیادہ ہیں، ان کے تحفظات بھی ہیں، پی ٹی آئی کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کی گئی ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آئینی ترمیم کی نوعیت سیاسی نہیں ہے، یہ پارلیمان کی بالادستی کیلئے کی جا رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نمبرز پورے ہوں گے تو ترمیم ہو گی، نہ ہوئے تو نہیں ہو گی۔ اجلاس کے موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں گفت و شنید سے بات آگے بڑھتی ہے۔ کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کا حل نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک ماہ سے اس مسئلے پر عوام میں بحث چل رہی ہے، اس میں کون سی غیرآئینی چیز ہے؟ اپوزیشن کے دوستوں سے کہوں گا اپنی تجاویز بھی دیں، صرف تنقید سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اجلاس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہاکہ مذاکرات درست سمت جا رہے ہیں۔ مولانا صاحب نے گزشتہ روز بہت اچھی بات کی ہے، مولانا صاحب نے کہا ہے کہ ایک متفقہ ڈرافٹ دیں گے۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی آئینی عدالت کو ترجیح سمجھا، یہ آئینی ترمیم عدالت پر حملہ ہر گز نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ججز کی تعیناتی پر مختلف ممالک میں مختلف طریقہ کار ہیں، کہیں ایسا نہیں کہ سنیارٹی کی بنیاد پر ججز تعینات ہوں، سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتیوں سے ڈیم فنڈز ہی بنے ہیں۔ شیری رحمٰن نے مزید کہاکہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے آئینی ترمیمی ڈرافٹ جمع کرایا ہے، اتفاق رائے پیدا کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کی خصوصیت ہے۔ پیپلز پارٹی قومی سلامتی پالیسی پر بھی اتفاق رائے پیدا کرتی ہے، انہوں نے کہاکہ سیاست میں باہمی مفادات کی بنیاد پر بات ہوتی ہے، کوئی چیز پرفیکٹ نہیں ہوتی، آئینی ترمیم بھی پرفیکٹ نہیں ہو گی، آئینی ترمیم میں شفافیت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہاکہ جمیعت علمائے اسلام نے بھی اپنا ڈرافٹ جمع کرایا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اپنی گفتگو میں کہاکہ ہم نے آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں دیکھا، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں جماعتیں ضرورت کے تحت اصلاحتی ایجنڈے کی مخالفت یا حمایت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی عدالتی اصلاحت سے متعلق ماضی میں حق میں تھی، آج مخالف اس لیے کر رہی کہ سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا۔ اصول کہاں ہیں ہم تو اصولوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم کے مندرجہ جات کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، آئین کی63،51،175،187، اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافہ کرنے ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز شامل کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جا سکے گا۔ ذرائع نے مزید بتایا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کا تقرر سپریم کورٹ کے3 سینئر ججز کے پینل سے ہو گا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس لگائے گی، کمیٹی کے اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے کے درمیان زرداری ہائوس میں ملاقات ہوئی۔ شیری رحمٰن اور نوید قمر، سینیٹر کامران مرتضیٰ مشاورت میں شریک ہوئے، کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ہمارے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور کمیشن کا فرق ہے۔ پیپلز پارٹی کے باقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اْمید ہے جلد دونوں جماعتیں مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کر لیں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ خصوصی کمیٹی کے اجلاس میںکمیٹی ارکان نے پی ٹی آئی کے 15 تاریخ کے احتجاج کے اعلان پر اظہار تشویش کیا۔ کمیٹی ارکان نے کہا کہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف ترمیم کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں اور دوسری طرف انتشاری سیاست۔ جس پر پی ٹی ائی کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے، حکومت نے فسطائیت کی انتہا کر دی ہے۔ عمر ایوب کا کہنا ہے کہ ہم آئینی ترمیم پر اپنا مؤقف کھل کرپیش کریں گے، اْمید ہے ہمیشہ کی طرح ہماری آواز نہیں دبائی جائے گی۔ پی ٹی آئی کے وفد میں بیرسٹر گوہر، عمر ایوب اور دیگر افراد شامل تھے۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار، پیپلز پارٹی کے نوید قمر، راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمٰن بھی خصوصی اجلاس میں شریک تھے۔ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے ہمیں تو آئینی ترمیمی مسودہ پر تحفظات کا ابھی تک نہیں کہا، جب جماعت اسلامی کہے گی تو دیکھیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومتی ڈرافٹ میں میں کہا گیا مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیرِ اعظم کو دیے جائیں گے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہو گا۔ جج کی برطرفی کے لیے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدرِ مملکت دیں گے۔ مجوزہ ترمیم کا کہنا یے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا۔ چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہو سکے گی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہو گا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کا حصہ بنایا جبکہ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر بھی ویڈیو لنک پر اجلاس میں شریک ہوئے۔جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے کہا ہے کہ جے یو آئی (ف) نے اپنا مسودہ شیئر کر دیا ہے۔ میرے خیال میں ن لیگ اور پی پی بھی فرد واحد کیلئے ترمیم نہیں چاہتے۔ 150 کے قریب آئینی مقدمات کیلئے عدالت کی تشکیل عجیب بات ہے۔ بہتر ہے کہ آئینی مقدمات کے حل کیلئے خصوصی بنچ بنایا جائے۔ ہمارے مسودے میں یہ نہیں کہ تین یا چار ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب ہو‘ چاہتے ہیں جس طرح چیف جسٹس کی تعیناتی ماضی میں ہوتی رہی اسی طرح ہو، ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور نہ حکومت کے ساتھ ہم نے آئینی ترمیم سے متعلق اپنا مسودہ بنایا ہے۔