صدر بش نے نائن الیون کے بعد اور افغانستان کےخلاف جارحیت سے قبل اسے صلیبی جنگ قرار دیا تھا لیکن مسلم ممالک کے شدید ردعمل پر بش نے اپنے الفاظ تو واپس لے لئے لیکن یہود و نصاریٰ کو صلیبی جنگ کے نام ہی پر متحد کرکے افغانستان کو تاراج کیا‘ پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ امریکہ کی جنگ پاکستان تک پھیل چکی ہے‘ لیبیا زیرعتاب ہے‘ اسکے بعد شام و ایران پر نظر ہے‘ نائن الیون کی برسی جس اہتمام سے منائی گئی اور اسے مذہبی رنگ دیا گیا‘ عیسائی دنیا میں دعائیں کی گئیں‘ پاپائے روم نے خصوصی دعا کرائی‘ یہ دعائیں صرف نائن الیون اور امریکی جنگ میں مارے جانےوالے امریکیوں اور اتحادی ممالک کے فوجیوں کیلئے تھیں۔ امریکہ کی جنگ میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادت اور معذوری پر اشک بار ہونا تو کجا‘ ایک لفظ بھی نہ کہا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ اسے صلیبی جنگ سمجھ کر ہی لڑ رہے ہیں۔ اوباما نے اپنی تقریر اور آرٹیکل میں کہا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ صرف امریکہ ہی نہیں‘ بلکہ دنیا اور انسانیت پر حملہ تھا‘ اگر یہ دنیا اور انسانیت پر حملہ تھا تو اسکی تحقیقات کی جاتی‘ اسکے بعد مجرموں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا۔ آج دس سال بعد بھی سانحہ نائن الیون کے حقائق سامنے نہیں آسکے۔ مغربی میڈیا تک سانحہ نائن الیون کو ڈرامہ قرار دے چکا ہے جس کا سکرپٹ یہودیوں نے لکھا اور اس پر امریکہ سے مل کر عمل کیا گیا۔ صدر بش کا نائن الیون کے فوری بعد اسامہ بن لادن کی امریکہ حوالگی کا مطالبہ اور افغانستان پر حملے کا اعلان امریکی ڈرامے کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ ملا عمر تو اسامہ بن لادن کو کسی غیرجانبدار ملک کے حوالے کرنے پر تیار تھے‘ لیکن اسلام و مسلمان دشمنی میں پاگل بش نے اپنی مسلط کردہ صلیبی جنگ میں انکی ایک نہ سنی۔ اوباما آج جس حملے کو دنیا اور انسانیت پر حملہ قرار دیتے ہیں اس کا بدلہ لینے کیلئے تین ہزار افراد کے بدلے میں (جن کو خود عیسائیت اور یہودیت نے موت کا ایندھن بنایا‘ اس کا مسلمانوں پر الزام لگا کر) لاکھوں مسلمانوں بشمول 40 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ ڈرون حملے جن میں معصوم بچے‘ خواتین اور بے گناہ افراد مارے جا رہے ہیں‘ یہ انسانیت کے کس زمرے میں آتے ہیں؟
اوباما پوری دنیا میں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے دعویدار ہیں‘ امریکہ کی طرف سے فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹ‘ اپنے بغل بچے اسرائیل کی بے جا حمایت‘ مسئلہ کشمیر پر مجرمانہ خاموشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گو اقوام متحدہ کا کردار امریکہ کی لونڈی کا سا رہا ہے‘ وہ بھی اپنی رپورٹوں میں قرار دے چکی ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سب سے زیادہ مقبوضہ وادی اور فلسطین میں ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کشمیر میں ہنود اور فلسطین میں یہود کے مظالم اور سسکتی ہوئی انسانیت کیوں نظر نہیں آتی؟ کیا امریکی مفاد کو گزند پہنچنا ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے؟ افغان محقق ڈاکٹر داﺅد کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے‘ اسکے اثرات طویل مدت تک رہیں گے۔ پڑوسی ممالک بھی تابکاری سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر داﺅد کی تحقیق کی تصدیق پاکستان میں ڈرون حملوں سے ہونےوالی تباہی سے بھی ہوتی ہے جن علاقوں میں ڈرون حملے ہوئے‘ وہاں خطرناک جلدی امراض پھیل چکے ہیں۔ متاثرہ آبادیاں پہلے ہی شدید نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں‘ ان امراض کے علاوہ میزائل وارہیڈز کے مہلک کیمیائی اثرات کی وجہ سے درخت سوکھ رہے ہیں‘ زمینیں کاشت کے قابل نہیں رہیں‘ امریکہ کے یہ اقدامات کونسی انسانی خدمت ہے؟
نائن الیون کے سانحہ کے دس سال بعد آج سب سے اہم سوال یہ ہے‘ کیا امریکہ پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گیا ہے؟ اس کا جواب خود امریکی سراغ رساں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وارننگ میں موجود ہے کہ گراﺅنڈ زیرو پر دوران تقریر جہاں صدر اوباما موجود تھے‘ وہاں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ ٹونی بلیئر نے عالمی رہنماﺅں کو سیکورٹی کم نہ کرنے کی وارننگ دی ہے۔ برسی کے موقع پر پورے امریکہ میں ہائی الرٹ رہا۔ لاکھوں مسلمانوں کی خونریزی کے بعد بھی امریکہ اور اسکے اتحادی عراق اور افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے۔ حقائق نے ثابت کر دیا کہ امریکہ کے یہ اقدامات نہ صرف بے انصافی بر مبنی ہیں بلکہ انسانی حقوق کیخلاف ننگی جارحیت بھی ہیں۔ اپنی تقریر میں اوباما نے بڑے دعوے کئے‘ اتحادی ممالک اور امریکیوں کی ہلاکتوں کا نوحہ پڑھا‘ اتحادیوں کی قربانیوں کا ذکر کیا‘ مگر پاکستان جیسے فرنٹ لائن اتحادی کی خدمات اور قربانیوں پر خاموش رہے جس کی معیشت امریکی جنگ لڑتے لڑتے ڈوب گئی‘ پانچ ہزار سے زائد فوجیوں نے جاں قربان کر دی۔ امریکہ کی دوغلی پالیسیوں اور مسلمانوں پر مسلط کی گئی صلیبی جنگ کے باعث اسکے خلاف اہل اسلام کے دل میں نفرت کا لاوا ابل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیونس‘ اردن‘ مصر‘ یمن‘ لیبیا اور ایران و شام کے عوام امریکہ اور اسکی پالیسیوں کےخلاف سراپا احتجاج ہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی قیادت اپنے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے ورنہ اس کا سابق سوویت یونین جیسا حشر دور نہیں۔ پاکستانی قیادت کو امریکہ کی اسلام دشمنی کیخلاف بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔ ڈومور کے مطالبے کیخلاف نوموراور Enough is enough کا نعرہ بلند کرنا چاہیے۔ آخر کب تک ہم ڈرون حملوں کی صورت میں اپنے معصوم شہریوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔ ہمارے عسکری اداروں اور وزارت خارجہ کو بھی نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے اور عوامی خواہشات کے برعکس امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی صاحب سلامت نہیں کرنی چاہیے‘ جس کا مظاہرہ نائن الیون کی برسی پر کیا گیا ہے۔ اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ سیاسی قیادت کتنی ہی اپاہج کیوں نہ ہو‘ یہ ضرور نوٹ کرے کہ عوام کیا سوچتے ہیں‘ اقوام متحدہ پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ امریکہ کو جارحیت کا اذن عام دینے کا وتیرہ ترک کر دے ورنہ یہ عالمی ادارہ اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھے گا۔
بھارتی قانون دان کا بھاشن
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ”انصاف سب کےلئے اور استنثیٰ کسی کیلئے نہیں“ کے موضوع پر تین روزہ عالمی کانفرنس اہم سفارشات کی منظوری کے بعد ختم ہو گئی۔ کانفرنس میں بھارت‘ نیپال‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ فیجی‘ ملائشیا‘ برطانیہ اور افغانستان کے وفود نے شرکت کی۔ کانفرنس کی سفارشات میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ آئین پر عملدرآمد کرتے ہوئے عدلیہ کو انتظامیہ سے بلاتاخیر علٰیحدہ کیا جائے کیونکہ اسکے بغیر عدلیہ کی آزادی اور بالادستی کا اور آئین کی حکمرانی کا دعویٰ بے معنی ہے۔ حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹنے یا اسکی آواز کو نظرانداز کرنے سے اجتناب کرے۔ کانفرنس میں بھارتی مقررین نے دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی بات بھی کی ہے لیکن ان فاضل مقررین کو جو کہ بھارت کے سینئر قانون دان ہیں‘ ہمیں بھاشن دینے کے بجائے اپنی حکومت کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت باہمی تنازعات اور اختلافات طاقت کے بجائے عالمی ادارے کی قراردادوں کے مطابق حل کرے‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ باہمی تعلقات میں موجودہ بگاڑ برقرار رہے۔ یہ کیسی جمہوریت اور آئین پسندی ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادیں پس پشت ڈال کر سوا کروڑ سے زائد کشمیریوں کو انکے بنیادی حق استصواب سے محروم کیا ہوا ہے اور اپنی آدھی سے زیادہ فوج کو کشمیریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستانی دریاﺅں پر غیرقانونی ڈیم بنا کر پاکستان کو اسکے حصے کے پانی سے محروم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
خانوادہ قائد کی کسمپرسی
قائداعظم کے اہلخانہ کی مزار پر حاضری ملک کی خوشحالی اور بحالی امن کیلئے دعا اور حکومت پاکستان کی خاندانِ قائد سے بے اعتنائی قابل افسوس ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی کھربوں روپے کی جائیداد حکومت کی تحویل میں ہے‘ مگر حقیقت احوال یہ ہے کہ قائداعظم کا خاندان خوشحال نہیں بلکہ بدحالی کی زندگی گزار رہا ہے۔ کیا انکے بھانجے بھانجیوں اور دیگر اعزہ و اقارب کا اس جائیداد پر کوئی حق نہیں‘ اور کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ جس ہستی نے ہمیں اتنا بڑا ملک عطا کیا‘ آج ہم انکے عزیز وں کو اچھا رہن سہن بھی نہیں دے سکتے۔ حکمران طبقہ قائد کی فیملی کی زبوں حالی پر غور کرے اور قائد کی جائیداد پر دھرنا مار کر بیٹھنے کے بجائے انکے خانوادے میں تقسیم کرے تاکہ وہ بھی آرام و آسائش کی زندگی گزار سکیں۔ اس عمل سے قائد کی روح کو انبساط حاصل ہو گا اور دنیا یہ دیکھ کر ہم کو یہ الزام نہ دے سکے گی کہ جس نے جان دی‘ وطن دیا‘ اس کا خاندان کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ حکمران قائد کے اقارب کی عملی خبر گیری کریں‘ انکی ضروریات کا لحاظ رکھےں اور قائد کی اربوں روپے کی جائیداد میں جو وہ حکومت پاکستان کیلئے چھوڑ گئے ہیں‘ سے ان کو حصہ دیں یا انکے شایان وظائف لگائےں۔
سیلاب .... قوم اپنا فرض ادا کرے
سندھ میں ہونےوالی طوفانی بارشوں سے تباہ کاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس سے مزید 5 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں‘ ضلع بدین کے کئی شہروں کو فوری طور پر خالی کرانے کے احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں پیٹ اور جلد کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ چین نے 45 لاکھ ڈالر اور ایران نے 10 کروڑ ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بدین کے کئی علاقوں میں اقوام متحدہ نے امدادی کارروائیاں شروع کر دیں ہیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے قوم سے خطاب کے بعد برادر اسلامی ملک ایران اور چین پہلی فرصت میں مدد کیلئے میدان میں آئے ہیں امید ہے کہ اسی طرح دیگر ممالک بھی متاثرین کی مدد کیلئے آگے بڑھیں گے اور انشاءاللہ جلد از جلد متاثرین کو دوبارہ سے آباد کیا جا سکے گا۔ اس وقت متاثرین کو محفوظ جگہوں پر پہنچانا اور متاثرہ علاقوں میں پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانا ہے پیٹ اور جلد کی بیماریوں کو کنٹرول کیا جائے اور اس طرح موذی جانوروں کے ڈسنے سے پھیلنے والے زہر کو کنٹرول کرنے کیلئے امدادی کیمپوں میں ادویات پہنچائی جائیں۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی سندھ کے دورے کریں اور مصیبت میں پھنسے سندھی بھائیوں کو یقین دلائیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں پورے پاکستان کے عوام انکے ساتھ ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں سیاسی دکانداری مت چمکائی جائے۔ بلکہ بلاتفریق تمام لوگوں کی مدد کی جائے۔ مخیر حضرات اور این جی اوز بھی میدان میں آئیں اور متاثرہ بھائیوں کی مدد کریں لیکن سندھ یا پاکستان گورنمنٹ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ مخیر حضرات یا ادارے مدد کرنا چاہیں تو رقوم کس فنڈ میں بھجوائیں؟ اسکے ساتھ ساتھ مستقل طور پر سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ڈیم تعمیر کئے جائیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے بھی راستہ ہموار کیا جائے۔ سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اپنے ذاتی مفاد کیلئے تو ایک دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ملکی اور قومی مفاد کے کاموں کیلئے اکٹھے کیوں نہیں ہوتے‘ صدر آصف علی زرداری اے این پی اور سندھیوں کے کالا باغ ڈیم پر انکے تحفظات دور کریں اور اس پر فی الفور کام شروع کیا جائے تاکہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پایا جا سکے۔