کراچی:2 ٹارگٹ کلرز سمیت مزید 24 گرفتار‘ کباڑی مارکیٹ کے تاجروں نے ہڑتال کر دی‘ کامران مادھوری ‘ سہیل کمانڈو کو مدعی‘ گولیوں نے شناخت کر لیا

کراچی (تنویر بیگ / کرائم رپورٹر + وقائع نگار + ریڈیو نیوز) کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف رینجرز اور پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں۔ عزیز آباد کے علاقہ بھنگوریہ گوٹھ اور گلشن اقبال کا محاصرہ کر کے گھروں کی تلاشی و دیگر علاقوں میں چھاپے مار کر 2 ٹارگٹ کلرز سمیت 24 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کر لیا گیا۔ کباڑی مارکیٹ کے تاجروں نے ساتھی کی عدم بازیابی پر غیر معینہ مدت تک ہڑتال کر دی۔ کامران مادھوری اور سہیل کمانڈو کو مدعی اور گواہوں نے شناخت کر لیا۔ سندھ میں اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کی تفتیش شروع کر دی گئی‘ پولیس کی تنخواہوں میں 4400 سے 20 ہزار اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق رینجرز نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب کارروائی کی‘ جس کے دوران گیارہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے بعض کے قبضے سے اسلحہ بھی بر آمد ہوا۔ اس کے علاوہ رینجرز نے گلشن اقبال میں واقع گڈلک اپارٹمنٹ اور پائینر فلیٹوں کی تلاشی لی جہاں سے دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے لانڈھی کے علاقے شیر پاﺅ کالونی میں مہاجر قومی موومنٹ کے دفتر پر چھاپہ مار کر ان کے ایک کارکن کاشف کو گرفتار کیا۔ نارتھ کراچی سے بھتہ خور گروپ کے ایک ملزم عبدل عرف اہل کو گرفتار کر کے اس کے قبضے سے پستول اور بھتے کی پرچیاں برآمد کیں۔ محمود آباد سے پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ظفر‘ شاہ فیصل کالونی سے ٹارگٹ کلر نصیر عرف نصیرا جبکہ لاڑکانہ سے شفیق کو گرفتار کیا گیا جس نے 5 افراد کے قتل کا اعتراف کر لیا۔ اس کے علاوہ لیاری کے علاقے میں گندے نالے سے ایک کلاشنکوف اور گولیاں ملی ہیں۔ شیرشاہ کباڑی مارکیٹ سے نامعلوم مسلح افراد خالد نامی تاجر کو اغوا کر کے لے گئے تھے جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے الزام میں گرفتار کامران عرف مادھوری اور سہیل کمانڈو کو سخت حفاظتی انتظام میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس دونوں ملزمان کو ایمبولینس میں لے کر آئی۔ دریں اثناءکراچی پولیس چیف سعود مرزا نے کہا ہے کہ پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن سے ٹارگٹ کلنگ میں کمی ہوئی۔ 18 اگست سے 11 ستمبر تک 48 ٹارگٹ کلرز اور 21 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا ہے۔ دریں اثناءمقتدر حلقے سرگرم ہو گئے کہ اسلحہ لائسنس کس کس کو اور کس کی سفارش پر جاری ہوئے اس کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔ حساس اداروں نے اپنے طور پر فیکٹ فائنڈنگ شروع کر دی‘ سندھ میں گذشتہ 20 سال میں 2 لاکھ اور گذشتہ چند سالوں میں 5 لاکھ لائسنس جاری ہوئے‘ آج تک اتنے لائسنس جاری نہیں ہوئے جتنے گذشتہ برس جاری کئے گئے۔

ای پیپر دی نیشن