”تین کام“

ہندوستان رقبہ کے حساب سے دنیا کے چند بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ صدیوں پہلے یہ مختلف اکائیوں میں بٹا ہوا تھا۔ ہر اکائی کی بولی اور ثقافت جدا تھی۔ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سرسبز وادیوں، کوہساروں اور سونے چاندی سے بھرے خزانوں کی داستانیں ہندوستان سے باہر پھیلنے لگیں طالع آزماﺅں نے ادھر کا رُخ کیا۔ لوٹ مار کرتے جو ہاتھ لگتا لیکر رفوچکر ہو جاتے۔ چند ایک نے یہاں حکومت قائم کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو آب و ہوا راس نہ آئی تو کوئی یہاں کی مختلف بولی جانے والی زبانوں اور رنگ بھرنگی ثقافتوں کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ تنگ آکر واپس جانے میں ہی عافیت سمجھی اور کسی کو دوسرے حملہ آور نے آ کر بھگا دیا۔ صدیوں یہ کھیل کھیلا جاتا رہا۔ بالآخر کوہستان میں جنم لینے والا بابر پہاڑوں کو پھلانگتا چٹیل میدانوں کو روندتا طوفان کی طرح ہندوستان میں آ وارد ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کے تخت پر جا بیٹھا۔
یہاں کی آب و ہوا روح پرور نظاروں آبشاروں دریاﺅں، سرسبز وادیوں نے اسکا دل موہ لیا اور اس نے ہندوستان کو اپنا دیس بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے لائق بیٹے ہمایوں اور جانثار ساتھیوں کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ سب کی رضامندی سے سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حکومت نے معاملات کو چلانے اور فوج کی قوت بڑھانے کیلئے ہندوستانیوں کو دعوت دی۔ جوق درجوق لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ مغلوں کی بولی فارسی تھی اور ہندوستان میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی تھیں جن کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند مہمات میں مغلوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ ایسے مزید حالات سے بچنے کیلئے شدت سے محسوس کیا گیا کہ کوئی ایسی سادہ اور آسان بولی بنائی جائے جو ہندوستان بھر میں رابطے کا ذریعہ بن سکے۔ جسے سب آسانی سے بول اور سمجھ سکیں۔
مغل چاہتے تو اپنی زبان فارسی کو سرکاری زبان قرار دیتے مگر یہاں ان کے تدبر، فراست اور دانشمندی کی داد دینا ہو گی کہ انہوں نے ایسا نہ کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے فارسی کو سرکاری زبان قرار دیا تو ہندوستانی ہمیں ہمیشہ غیر سمجھیں گے چنانچہ اس معرکے کو سر کرنے کیلئے نہ صرف ہندوستان بلکہ ہمسایہ ممالک کے عالموں فاضلوں دانشوروں اور محققوں کو اکٹھا کیا گیا۔ انہیں مراعات سے نوازا گیا۔ انہوں نے اس معرکے کو سرانجام دینے کیلئے دن رات ایک کر دیئے بابر فوت ہو گیا مگر اس کی اولاد نے یہ کام جاری رکھا۔ سالہا سال کی محنت شاقہ کے بعد ایک ایسی زبان معرض وجود میں آ گئی۔ جس میں نہ صرف ہندوستان بھر میں بولی جانے والی زبانوں کے سادہ الفاظ کے علاوہ فارسی، بلوچی، پشتو اور عربی کے الفاظ بھی شامل تھے کیونکہ اس کی ضرورت لشکری مہمات کے دوران ہوتی تھی لہذا اسکا نام اردو رکھا گیا۔ جس کا سادہ مطلب لشکری زبان یعنی رابطہ کی زبان قرار پایا۔ رسم الخط فارسی سے مشابہ رکھا گیا۔
جوں جوں سلطنت مغلیہ وسیع ہوتی گئی اردو ترقی کرتی گئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مغلوں نے اردو زبان دے کر ہندوستان کو ایک لڑی میں پرو دیا۔
مغلیہ سلطنت کا ڈنکا ہندوستان میں بج رہا تھا کہ تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔ تاجروں کے روپ میں انگریزوں نے سمندری راستے سے ہندوستان کے ساحل پر قدم رکھا۔ اس کے بعد فرانسیسیوں اور پرتگالیوں نے بھی ادھر کا رخ کیا۔سب کا مقصد سونے کی چڑیا ہندوستان کو لوٹنا تھا۔ وہ موقعہ کی تلاش میں بھیگی بلی بنے رہے اور وہ موقعہ مغل بادشاہوں کی اولاد نے اقتدار حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں کھینچ کر مہیا کر دیا۔ انگریزوں نے پاﺅں پھیلانا شروع کر دیئے اپنی منظم اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج اور غداروں کی کھیپ نے ان کے راستے کے تمام کانٹے باآسانی صاف کر دیئے۔ فرانسیسی بھاگ گئے۔ پرتگالی گوا تک محدود ہو کر رہ گئے اور انگریزوں نے ہندوستان پر برطانیہ کا جھنڈا لہرا دیا۔ آخری مغل بادشاہ کو کالے پانی (جزائر انڈیمان) میں قید کر دیا گیا۔شہزادوں کو دہلی میں سولیوں پر لٹکا دیا گیا۔ اس فتح عظیم میں جن غداروں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا انہیں جاگیریں دی گئیں۔ ان کے بچوں اور بچیوں کو انگلستان بھیج دیا گیا تاکہ آنے والی نسل انکی تابعدار اور وفادار رہے۔ گو حکومت برطانیہ نے اپنے دور میں ہندوستان میں بہت سی اصلاحات کیں۔ ریلوے ڈاکخانہ، ٹیلی گراف، جہاز، کاریں، پل، سڑکیں ہر قسم کی جدید مشینری حتیٰ کہ سائیکل تک متعارف کرائی مگر اردو کی بجائے انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیکر کروڑوں ہندوستانیوں کو اپنے سے دور کر دیا۔ حکومت کو چلانے کیلئے انہیں ایسے ہندوستانیوں کی ضرورت تھی جو انگریزی زبان جانتے ہوں۔ اس کےلئے سکول اور کالج بنائے گئے انگریز اساتذہ کو مقرر کیا گیا۔ ان میں داخلہ لینا متوسط طبقے کے بس کی بات نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ درسگاہیں راجوں، نوابوں، جاگیرداروں اور رئیسوں کی اولاد کیلئے مخصوص ہو کر رہ گئیں۔ حکومت چاہتی بھی یہی تھی کہ ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جائے جو آنے والے وقت میں انکے اشاروں پر چلے۔ میرا خیال ہے اگر انگریز اردو کو بھی سرکاری زبان رکھتے اور ہندوستان کو ایک کالونی کی بجائے اپنا دیس سمجھتے تو آج بھی ان کی حکومت ہوتی۔
(جاری)
وقت کیا گل کھلاتا ہے ایک وقتایسا آتا ہے انہی سکولوں اور کالجوں کے پڑھے لکھے لوگوں میں سے چند ہندوستان کی آزادی کا سبب بنتے ہیں۔ ایک صدی بھی نہیں گزرتی کہ ہندوستان بھر میں برطانیہ کے خلاف بلا امتیاز مذہب و ملت کانگرس کے پرچم تلے آزادی کی تحریکیں چلتی ہیں۔ حکومت ڈگمگا جاتی ہے۔ موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اچانک چند متعصب ہندو لیڈر صدیوں پرانے ناطے توڑتے ہوئے نعرہ مارتے ہیں ہندوستان صرف ہندوﺅں کا ہے اور اس پر حکومت کرنا صرف ہندوﺅں کا حق ہے۔ اس نعرے سے جہاں سب اقلیتی فرقے حیران ہوتے ہیں وہاں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ششدر رہ جاتے ہیں۔ انہیں اپنا وجود ختم ہوتا نظر آنے لگتا ہے انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ انہیںصرف مہرہ بنایا جا رہا ہے۔ انگریز کی غلامی سے نکال کر ہندوﺅں کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالا جا رہا ہے یہ نقطہ مسلم لیگ کو جنم دیتا ہے جو مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں الگ خطے کا مطالبہ کرتی ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں یہ تحریک اتنی تندی و تیزی سے پھیلتی ہے کہ کانگرس کی تمام تر مخالفت کے باوجود حکومت برطانیہ کو مسلم لیگ کا مطالبہ ماننا پڑتا ہے۔
14 اگست 1947 کو مشرقی اور مغربی پاکستان معرض وجود میں آتے ہیں۔ متعصب کانگریسی بھڑک اٹھتے ہیں۔ نسلی فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ مارے جاتے ہیں کھربوں کی املاک تباہ ہو جاتی ہےں۔ دو ملکوں کے درمیان تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوتی ہے۔ ہندوستان کو ورثے میں ایک پائیدار مضبوط اور مستحکم حکومت ملتی ہے جس کے پاس ملک کو چلانے کے تمام تر وسائل موجود تھے۔ اس کے برعکس پاکستان کا نہ کوئی دارالخلافہ تھانہ بنک کرنسی نہ فوج نہ ہتھیار، ہوائی جہاز، سمندری جہاز تو دور کی بات کوئی بڑی صنعت یا کارخانہ تک نہ تھا۔ عالم یہ تھا کہ دفتروں میں پیپر پن تک نہ تھیں۔ تمام تر انحصار زراعت پر تھا جن پر انگریزوں کے پروردہ جاگیردار نواب، ملک وڈیرے اور خان بہاردر قابض تھے۔
آزاد ہوتے ہی ہندوستانی حکومت نے تین بے حد اہم کام کئے۔
-1 پاکستان کو ریگستان بنانے کیلئے 1947 میں ہی تمام قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر پر حملہ کر کے ان تمام دریاﺅں پہ قبضہ کر لیا جو پاکستان کی خوشحالی کے ضامن تھے۔ پاکستان نے عالمی طاقتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، میٹنگ در مٹنگ ہوئی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا جس کی تشریخ 65 سال گذر گئے۔ آج تک نہیں ہو سکی۔ آج بھی تلوار ہندوستان کے ہاتھ میں ہے اور گردن پاکستان کی۔ اس معاہدے سے پاکستان نے نہ صرف کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضہ کو تسلیم کیا بلکہ کشمیریوں کی جنگ آزادی کی راہ میں کانٹے بھر دیئے جنہیں کشمیری آج تک جان کے نذرانے دیکر نکال رہے ہیں۔
دوسرا اہم کام یہ تھا کہ ہندوستانی لیڈر شپ اچھی طرح جان چکی تھی کہ ہندوستان کی بقا کیلئے لازمی ہے کہ نظام حکومت جمہوری ہونا چاہئے ورنہ کوئی طالع آزما پھر انہیں اندھیروں میں دھکیل دے گا۔ یہ طالع آزما کوئی اور نہیں انگریزوں کی وہ باقیات ہیں جو راجوں، سرداروں، ٹھاکروں، نوابوں اور نظاموں کی صورت میں ہندوستان کی سرزمین میں پنجے گاڑھے ہوئے ہیں ان کے ہوتے ہوئے جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا چنانچہ بیک قلم انکی ریاستوں، جاگیروں اور خزانوں کو بحق سرکار ضبط کر لیا گیا اور زمینوں کو کاشتکاروں میں تقسیم کر کے جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط کر دیا۔
جب یہ خبر پاکستانی وڈیروں سرداروں نوابوں، ملکوں اور خان بہادروں تک پہنچی تو سب نے سر اور سرداریاں بچانے کیلئے سرجوڑ لئے۔ سکیم کے تحت نہ صرف خود بلکہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، پوتے پوتیوں رشتہ داروں سمیت حکومتی عہدوں پر قابض ہونے کیلئے ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے۔ قیام پاکستان کو سال بھی نہ گزرا تھا کہ قائداعظم وفات پا گئے۔ ان لوگوں کی راہ کا کانٹا نکل گیا۔ سازشیں کی گئیں۔ 4 سال بھی نہ گذرے تھے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا۔ میدان صاف ہو گیا۔
تیسرا اہم کام۔ ہندو قیادت اردو کی بجائے ہندی کو قومی زبان بنانا چاہتی تھی مگر مجبوری یہ تھی کہ ہندی زبان 95 فیصد ہندو بھی نہ بول سکتے تھے اور نہ ہی لکھ سکتے تھے۔ اگر زبردستی ہندی لاگو کر دی جاتی تو لسانیت کے کئی دروازے کھل جاتے۔ تمام پہلوﺅں پر غور کے بعد ہندوستانی حکومت نے کمال ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کروڑوں افراد میں بولی اور سمجھی جانے والی اردو کو ہندی کا نام دے کر لسانیت کے تمام دروازے بند کر دیئے۔
قائداعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا جس کی ترقی و ترویج کیلئے ایک کمشن بھی بنایا گیا مگر ان کی آنکھ بند ہوتے ہی خان بہادروں نے پر پرزے نکالے۔ وہ کسی صورت یہ برداشت کرنے کو تیار نہ تھے کہ کسی غریب کا پڑھا لکھا بچہ ان کے سامنے آ کھڑا ہو۔ حکومت پر اپنا قبضہ اور عوام پر گرفت مضبوط رکھنے کےلئے انہوں نے اپنے آقاﺅں کی زبان انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیدیا۔ ان آقاﺅں کی جن سے آزادی حاصل کرنے کیلئے لاکھوں لوگوں نے جان کے نذرانے دیئے تھے۔ جسے 95 فیصد پاکستانی نہ لکھ سکتے تھے اور نہ ہی پڑھ سکتے تھے۔ یوں لاکھوں ہونہار اور لائق لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ جوں جوں وقت گذرتا گیا ان سرداروں کی گرفت مضبوط سے مضبوط ہوتی گئی۔ عالم یہ ہے کہ جو انگریزی بول یا لکھ نہیں سکتا اسے جاہل اور گنوار سمجھا جاتا ہے۔
دنیا میں سینکڑوں ممالک ہیں چھوٹے سے چھوٹے ملک کی اپنی زبان ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جو غیروں کی زبان کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔
افسوس ہندوستان نے جو تین اہم کام کئے ہم ان میں سے کسی ایک پر بھی کام نہ کر سکے۔

ای پیپر دی نیشن