کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں آتشزدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری کےباہرجمعرات کے روز بھی لوگ اپنے پیاروں کے لئے روتے ہوئے دکھائی دیئے۔ تاہم پورا دن کوئی لاش نہ مل سکی۔ متعلقہ حکام نے فیکٹری کو کلیئر کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اب یہاں زندگی کےکوئی آثار نہیں اور نہ ہی کوئی لاش باقی ہے۔دوسری جانب وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے متاثرہ فیکٹری کا دورہ کیا۔ اس موقع پرمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیکٹری مالکان مفرور ہیں تاہم انہیں حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے بصورت دیگر ان کے خلاف کیس مضبوط ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ واقعہ کی جوڈیشل انکوائری ہورہی ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم کے رضا کاروں کی بڑی تعداد جائے واقع پر موجود رہی جبکہ ایم کیو ایم کے وفاقی اور صوبائی وزرا ،رابطہ کمیٹی کے ارکان اور کارکنوں کی بڑی تعداد نے فیکٹری کے احاطے میں پھول چڑھائے اور دیئے روشن کئے۔اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ غریب مزدوروں کے لیے صرف حکومتی امداد ہی کافی نہیں، فیکٹری مالکان ، تاجراور دیگر مخیر حضرات بھی ان خاندانوں کی باعزت کفالت کا بندوبست کریں۔انہوں نے کہا کہ آتشزدگی کو قومی سانحہ قرار دیا جائے۔
کمشنر کراچی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو سو اٹھاون افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہوئے جن میں سے ایک سو تہتر افراد کی لاشیں ان کے ورثا کے حوالے کی جا چکی ہیں جبکہ تمام چالیس زخمی بھی اپنے گھروں کو جاچکے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ناقابل شناخت پچاسی لاشوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کیا جائے گا۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن شہر قائد کے لئے ایک قیامت تھی جو دو سو نواسی گھرانوں کو تباہ کرگئی،اس واقعے کی ذمہ داری فیکٹری مالک کی ہو یا حکومتی اداروں کی، اتنا ضرور واضح ہوگیا کہ انتظامیہ جلتی عمارت سے لوگوں کو بحفاظت نکالنے کی بھی اہل نہیں۔
سانحہ کراچی کے تیسرے روز بھی متاثرہ فیکٹری کے باہر لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے جبکہ حکام نے فیکٹری کو کلیئرقراردےدیا ہے۔
Sep 13, 2012 | 20:52