ان دنوں چودھری محمد سرور اور لارڈ نذیر احمد کا ہر جگہ چرچا ہے ، کوئی ان کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں۔مگر ہم کیوں بھولتے ہیں کہ شجاعت عظیم اور ڈاکٹر طاہرالقادری بھی انہی کی طرح تارکین وطن ہیں لیکن ایک کو ہم نے وطن سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور دوسرے کو دیوا رسے لگا دیا ۔
سینیٹر طارق عظیم بھی لندن سے آئے ہیں ،برسوں پہلے صبغت اللہ قادری کیو سی کے ساتھ ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی تھی، وہ کب لندن چھوڑ کر پاکستان آئے، ق لیگ کے کس طرح اعلی عہدیدار بنے،اور اب ن لیگ میں وہ کیا خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کی تفصیل سے بچہ بچہ واقف ہے۔بات کرنے کا ہنر اور سلیقہ کوئی ان سے سیکھے، مگر جب اوور سیز پاکستانیوں کا ذکر چھڑتا ہے تو وہ ساری چوکڑی بھول جاتے ہیں، اس لئے نہیں کہ ان کے سگے بھائی شجاعت عظیم کو ہم نے پاکستان سے بھگا دیا بلکہ اس لئے کہ انہوں نے برسوں اوور سیز پاکستانیوں کے کردار کا مشاہدہ کیا ہے ،خود بھی اوور سیز پاکستانی کی حیثیت سے اہل وطن کی خدمت میں پیش پیش رہے ہیں ، انہیں قلق اس بات کا ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کو باہر بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی ا ن کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ تو بہت برا ہوا،انہیں بد نیت کہا گیا،جمہوریت دشمن قراردیا گیا، میاں نوازشریف نے ان کے دھرنے کے دوران اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی کا انعقاد کیاا ور اعلان جاری کیا کہ یہ سب جماعتیںغیر سیاسی ، غیر جمہوری قوتوںکے سامنے دیوار بن جائیں گی۔ ڈھکے چھپے انداز میں نہیں ، بڑا واضح الزام تھا کہ ڈاکٹر قادری کو کسی نے لانچ کیا ہے اور الیکشن رکوانے اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازش کی جار ہی ہے۔
ڈاکٹر قادری نے صرف اتنا کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے مطابق نہیں ہے، اس کا ڈھانچہ نئے سرے سے کھڑا کیا جائے، اس پر مہینے اور ہفتے نہیں ، چند روز درکار تھے۔دوسرا مطالبہ ان کا یہ تھا کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں جن میں سر فہرست آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر عمل در آمد تھا۔آئین پر عمل کے لئے زور دینا بھی اس ملک میںجرم بن گیا اور اس مطالبے کو رد کرنے کے لئے یہاں تک کہا گیا کہ آج خود قائد اعظم بھی الیکشن میں کھڑے ہوں تو باسٹھ تریسٹھ کے تحت ان پر اعتراضا ت کر دیئے جاتے، کون بد بخت ہو گا جو ایسا اعتراض ذہن میں بھی لاتا مگر مفاد پرستوں کا گٹھ جوڑ ہو چکا تھا، باسٹھ تریسٹھ کو ریٹرننگ افسروں نے مذاق کا نشانہ بنایا ۔ اور میڈیا نے چسکے لے کر ملک کی نظریاتی اساس پر ہتھوڑے چلائے، ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبے دھرے کے دھرے رہ گئے، الیکشن اسی طرح ہوا جیسا پہلے ہوتا چلا ٓرہا ہے اور حکومت کا نظام بھی ویسے ہی چلایا جارہا ہے جیسے پہلے چلایا جاتا رہا ہے،فوجی آمروں کے دور اور جمہوری دور میں فرق کو مٹا کورکھ دیا گیا۔تبدیلی کے نعرے خواب بن گئے، الیکشن کے منشور ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیئے گئے، اب کوئی بجلی مانگتا ہے تواس کو ٹکا ساجواب، کوئی مہنگائی سے نجات کا طلبگار ہے تواس کو ٹھینگا دکھا دیا جاتا ہے۔اس کی بجائے نئے خواب دکھائے جا رہیں ۔ موٹرویز کا جال، انڈر گراﺅنڈ میٹرو کے خوشنما منصوبے،کاشغر سے گوادر تک تجارتی راہداری کاجھنجنا،لوگ بجلی مانگتے ہیں ، مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں ، انہیں نئے دارالحکومت کی تعمیر کی خوش خبری سنائی جاتی ہے،لوگ جان و مال کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں،ان کے دل بہلاوے کے لئے اے پی سی کا اسٹیج سجایا جاتا ہے۔اور یہ سب کچھ وہ لوگ کر ر ہے ہیں جو خالص پاکستانی ہیں۔
اوور سیز پاکستانیوں کا قصور کیا ہے، کیا یہ کہ وہ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں ، کیا یہ کہ وہ کرپشن کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں ، کیا یہ کہ وہ میرٹ کی بالا دستی کے حق میں ہیں۔کیا یہ کہ وہ پی آئی اے کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے ہنر سے آشنا ہیں۔
طارق عظیم بتاتے ہیں کہ اوور سیز پاکستانی کس کس طرح ملک کی خدمت کر رہے ہیں ، ملک سے جانے والوں کو ایئر پورٹ سے اپنی لیمو زین میں بٹھاتے ہیں ، انہیں بڑے ہوٹلوںمیں ٹھہراتے ہیں ، ان کے لئے استقبالئے سجاتے ہیں۔کینسر،ٹائی فائڈ، فالج اور دیگر موذی امراض کے علاج کےلئے فنڈ اکٹھے کرتے ہیں۔ اسکولوں کا جال بچھاتے ہیں، نادار طلبہ کو وظائف فراہم کرتے ہیں۔اور قومی خزانے کو اربوں ڈالر کے زر مبادلہ سے نوازتے ہیں۔ان خدمات کے باوجودان میں سے کسی کے پاس دہری شہریت ہو تو وہ گردن زدنی۔
طارق عظیم نے دل کے تاروں کو چھیڑا، یہ بتایا کہ کس طرح گلاسگو کے چودھری یعقوب کو بہلا پھسلا کر ایک پاکستانی بنک میں اربوں روپے ڈالنے پر آمادہ کیا گیا اور جب تک چودھری یعقوب پر یہ راز کھلا کہ یہ تو سب فراڈ ہے تو اس کے چند ارب ڈوب چکے تھے، اسے باقی جو کچھ ملا ، وہ بھی اربوں میں تھا ، اس نے گلاسگویونیورسٹی کو یہ سرمایہ عطیہ کر دیا کہ اس کو پاکستانی طالب علموں کی اعلی تعلیم پر خرچ کیا جائے۔سرور اور نذیر انگریزی فر فر بول سکتے ہیں لیکن یعقوب واجبی تعلیم رکھتا تھا ، پھر بھی اس نے پاکستانی سفیرعلی ارشد کو ملکہ سے کہہ کر وزیر دفاع سے ملوا دیا ۔ان دنوں ہم پاکستانی فریگیٹس کے لئے فالتو پرزے خریدنا چاہتے تھے اور وزیر موصوف سفیر محترم کو کئی ماہ سے گھاس نہیں ڈال رہے تھے، کتنے ہی اوور سیزپاکستانیوںنے ملک کے جوہری پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کردار ادا کیا، کوئی یہ شاہنامہ طا رق عظیم سے سنے۔
ربع صدی قبل مجھے گلاسگو کی کیش اینڈ کیری میں چودھری یعقوب سے ایک کپ کافی پینے کا شرف حاصل ہوا تھا۔اس نے بڑی سادگی سے بتایا تھا کہ یہ کیش اینڈ کیری یورپ میں سب سے بڑی ہے اور اس کا افتتاح شاہی خاندان کے ہاتھوں ہوا تھا۔اس کے لہجے میں تکبر اور غرور کا شائبہ تک نہ تھا۔
امریکہ میں ڈاکٹروں ، انجنیئر وں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین نے جہاںمادر وطن کا نام روشن کیا ، وہاں ملکی ترقی میں قابل قدر حصہ ڈالا ۔مڈل ایسٹ میں پاکستانی دن رات مشقت کی چکی میں پستے ہیں اور اپنی جمع پونجی مادر وطن کے قدموں میںنچھاور کر دیتے ہیں۔اونٹ دوڑ میں استعمال ہونے والے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے طارق عظیم نے عظیم کردار ادا کیا، اب سولہ سال سے کم عمر کا بچہ اونٹ دوڑ کے لئے نہیں لے جایا جا سکتا ، عرب امارات نے اپنا قانون بدل دیا ہے ۔طارق عظیم سمیت اس روشن کردار کے مالک اوور سیز پاکستانیوں کو پھر بھی ہم شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
لارڈ نذیر اور محمد سرور کو ہم آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور شجاعت عظیم اور ڈاکٹر طاہر القادری کی نیت پر شک کرتے ہیں۔کیا ہمارے آئین کا تقاضا یہی ہے۔اس پر بھی ایک اے پی سی بلا لی جائے۔