خالد یزدانی
پاکستان بفضل خدا ایسے خطہ میں واقع ہے جہاں قدرت نے کئی موسم عطا کئے اور اس سر زمین میں پانچ دریا بھی بہتے ہیں اس کے باوجود گزشتہ کئی دہائیوں سے پانی کے ذخائر میں کمی کا مسئلہ سرفہرست رہا کیونکہ ریگستانوں کو نخلستان بنانے اور اندھیروں کو روشنی دینے کے لئے نئے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر تھی مگر چھوٹے بڑے چند ڈیموں کے بعد بڑا دیم نہ بن سکااور کالا باغ ڈیم کا مسئلہ کھٹائی کی نذر ہونے سے بلند و بالا برف پوش وادیوں سے نکلنے والے پانی کا وافر حصہ بھارت درجنوں ڈیموں میں ذخیرہ کر کے اس سے آبپاشی کے لئے بروئے کار لا تا رہا ہے مگر ہمارے دریائوں میں آنے والے پانی کا وافر حصہ سمندر کی نذر ہو تا رہا بلکہ ہو رہا ہے یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ڈیم بنا کر جہاں بجلی حاصل کی جاتی ہے وہاں اس سے آبپاشی کے لئے استعمال بھی کیا جاتا ہے اگر پانی ذخیرہ نہ ہو تو خشک سالی کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔
ہمارے ہاں بہنے والے دریائوں میں پانی کی سطح اسوقت بلند ہونے لگتی ہے جب بالائی علاقوں میں بارشیں معمول سے زیادہ ہوتی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کے برعکس موجودہ حکومت نے مختلف ڈیموں کی تعمیر پر پیش رفت کی ہے مگر اسکی تکمیل میں کچھ وقت لگے جس سے نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت حاصل ہو گی بلکہ اس سے بجلی کی پیدوار میں اضافہ سے لوڈشیڈنگ میں بھی کمی متوقع ہے مگر آج صورت حال یہ ہے کہ ایک بار پھر گزشتہ ہفتے ملک بھر میں اور خصوصاً پنجاب میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے چھوٹے بڑے شہروں کے ساتھ مضافاتی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا جس سے کچی آبادیاں تو زمین بوس ہوئیں اس سے گھریلو سامان کے ساتھ قیمتی انسانی جانیں بھی گئیں۔ ابھی طوفانی بارشوں کی شدت میں کمی آئی ہی تھی کہ بھارت نے اپنے علاقوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے ڈیموں کو کھول دیا اس کی قبل از وقت پاکستان کو اطلاع بھی نہ دی جس سے ہمارے دریا جس میں سال کے اکثر ماہ ندی نالوں سے بھی کم پانی دیکھنے کو ملتا تھا کی سطح بڑھنے لگی اور دیکھتے دیکھتے پانی کناروں سے باہر نکلنے لگا اور یوں سیلابی پانی کی پنجاب بھر میں تباہ کاریاں ہونے لگیںہی بقول شاعر۔۔اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو۔۔والا منظر دکھائی دینے لگا ۔سیلاب متاثرین کے ساتھ ساتھ ان کی مدد کے لئے انتظامیہ بھی مدد کو پہنچی اور دن رات حالات کو قابو کرنے میں کوشاں ہے حکومت پنجاب کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے مطابق صوبے کے مختلف علاقوں سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ تین سو سے زیادہ زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں ہلاکتوں کی تعداد 64 اور شمالی علاقے گلگت بلتستان میں 11 افراد ہلاک ہو نے کی اطلاع آئی تھی ۔ چند روز قبل کی صورت حال یہ تھی کہ دریائے چناب میں آنے والا بڑا سیلابی ریلا اس وقت صوبہ پنجاب کے وسطی علاقوں سے گزرتے ہوئے جنوبی علاقوں کی جانب بڑھ رہا تھا محکمہ موسمیات کے مطابق ممکنہ سیلاب کی وجہ سے ملتان اور مظفر گڑھ کے نشیبی علاقوں میں رہنے والے افراد دریا کے قریبی علاقے خالی کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں ضلع حافظ آباد اور چنیوٹ میں تباہی مچانے کے بعد سیلابی ریلے کا رخ جھنگ کی جانب ہوا جہاں تریموں کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب آ نے سے پانی کی سطح میں اضافہ ہوا اس حوالے سے جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ تریموں بیراج کو محفوظ رکھنے کے لئے دریائے چناب پر واقع بند میں شگاف ڈال دیا گیا ہے جس سے پانی اٹھارہ ہزاری اور احمد پور سیال کے قصبات اور ملحقہ دیہات میں داخل ہو گیا۔ بند توڑے جانے سے مزید سینکڑوں دیہات اور چھ سے سات لاکھ کے لگ بھگ افراد متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ذرائع کے مطابق پانی کے دبائو کی وجہ سے دریا کے جھنگ شہر کی طرف والے کنارے میں بھی دو جگہ شگاف پڑ گئے تھے جس کی وجہ سے جھنگ کو بھکر سے ملانے والی شاہراہ پر کئی فٹ تک پانی کھڑا ہو گیا پی ڈی ایم اے کے مطابق جھنگ میں سیلابی پانی میں پھنسے افراد کو نکالنے کے لئے پاکستانی فوج کے جوان دن رات امدادی سرگر میوں میں مصروف عمل ہیں اور ہیلی کاپٹروں کے علاوہ 91 کشتیوں کے ذریعے اب تک 30 ہزار سے زیادہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے پی ڈی ایم اے کی ویب سائٹ پر جاری کئے جانے والے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت صوبے میں 327 امدادی کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں منگل کی شام تک پنجاب میں 1500 سے زیادہ دیہات این ڈی ایم اے کے مطابق پانچ لاکھ 51 ہزار 159 افراد متاثر ہوئے پانچ لاکھ ایکٹر سے زیادہ رقبے پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ دوسری جانب دریائے چناب میں سیلاب کے نتیجے میں سیالکوٹ کے قریب واقع ہیڈ مرالہ سے جنوبی شہر جھنگ کے قریب واقع تریموں بیراج کے دریمانی علاقوں میں متاثر ہونے والے لاکھوں افراد تک امداد پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں ان امدادی کارروائیوں میں فوج اور سول انتظامیہ حصہ لے رہی ہیں جبکہ پانی میں پھنسے ہوئے افراد کو کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ مقامی میڈیا پر نشر کی جانے والی رپورٹوں میں سیلاب سے متاثرین کی بڑی تعداد امداد نہ ملنے کی شکایت بھی کرتی دکھائی دی جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر اعظم نواز شریف سیلاب زدہ علاقوں کے دورے بھی کر رہے ہیں سیلاب کے متاثرین سے بھرپور تعاون اور امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہمارے ہاں سیلاب کی تباہ کاریوں میں قدرت کے علاوہ ہماری اپنی غفلت کو بھی بڑی حد تک دخل ہے۔ ہم دریائوں اور ندی نالوں کے قرب و جواز میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں بارشوں اور سیلاب کی نظر کر دیتے ہیں جب یہ دریا بپھرتے ہیں تو قریبی اور نشیبی علاقوں کی آبادیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتے ہیں اور آج پنجاب میں آنے والے سیلاب بلاخیز میں اب تک لاتعداد ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ مال مویشی بھی بہہ چکے ہیں اور بچنے والے خاندان کیمپوں میں یا بے سروسامانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں سیلاب کا رخ پنجاب سے سندھ کی طرف ہے اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں حالات سے نمٹنے کے لئے حتمی المقدور کام کر رہی ہیں مگر حکومت کے ساتھ مختلف فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کا بھی فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں ان کا ہاتھ تھا میں ان سے بطریق احسن عہدہ برا ہونا ہی کمال ہے اللہ سے امید رکھنی چاہئے کہ مصیبت کی اس گھڑی سے بھی قوم نکل آئے گی۔