بارشوں کے بعد ڈینگی وائرس پھر سر اٹھانے لگا

Sep 13, 2014

فرزانہ چودھری
farzanach95@yahoo.com
حالیہ بارشوں نے جہاں ملک بھر میں تباہی مچا دی ہے۔ وہاں اس برساتی موسم کی وجہ سے مچھر کی نشوونما کے لئے ساز گار ماحول بھی پیدا کر دیا ہے۔ مچھر کی افزائشِ نسل مون سون کی بارشوں کے دوران اگست سے لے کر اکتوبر تک زیادہ ہوتی ہے۔ حالیہ بارشوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ جگہ جگہ پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے ڈینگی مچھر کی آبادی میں اضافے کے خدشات میں شدت کا امکان ہے۔ پنجاب بھر سے ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ابھی تک 38 سے زائد ڈینگی بخار کے مریض پورے پنجاب کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جس میں تقریباً  12 کے قریب مریض لاہور کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اگلے پندرہ دنوں میں ڈینگی وائرس وبائی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ جن مریضوں کو پہلے ڈینگی بخار ہو چکا ہے اور اگر اس بار بھی ان پر ڈینگی وائرس کا حملہ ہوا تو ایسے کیسز میں ہلاکتوں کا بھی امکان بڑھ سکتا ہے اس لئے ایسے مریضوں کو بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ان کو پورے بازوئوں کے کپڑے پہننے چاہئیں اور گملوں، فریج کے ٹرے ، ائر کولر اور اے سی کے ٹپ میں پانی جمع نہ ہونے دیں اور پانی کی ٹینکیاں ڈھانپ کر رکھیں۔ ڈینگی کو وبائی شکل اختیار کرنے سے روکنے کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈینگی مچھر کے انڈوں کی ایک بڑی تعداد پچھلے دسمبر سے موجود ہے۔ ایک خاص درجہ حرارت پر انڈہ لاروا میں تبدیل ہوتا ہے اس لئے انڈوں کو ایسا ماحول نہ دیا جائے کہ وہ لاروا میں بدل جائیں۔ 72 گھنٹوں کے بعد مناسب درجہ حرارت میں لاروا پیوپے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے باعث حکومت کی تمام تر توجہ اس جانب ہونے سے اور ڈینگی سے توجہ ہٹنے سے لاہور اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر ڈینگی پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ڈینگی پھیلانے والے مچھر کی افزائشِ نسل کا آغاز اگست سے شروع ہوتا ہے اور اکتوبر نومبر تک یہ سلسلہ رہتا ہے اور جب درجہ حرارت دس ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے آتا ہے تو یہ سلسلہ خود بخود رک جاتا ہے۔ اگر ان چند ماہ میں ڈینگی سے بچائو کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا جائے تو ڈینگی وبائی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ڈینگی کے مریضوں میں دن بدن اضافے کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے سرکاری ہسپتالوں نے کیا اقدامات کئے گئے ہیں اس حوالے سے ہم نے چیئرمین اور ڈین شیخ زید میڈیکل کمپلیکس پروفیسر اینڈ ہیڈ ڈویژن آف میڈیسن شیخ زید پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ ‘ شیخ زید ہسپتال پرنسپل شیخ خلیفہ بن زید النیہان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج لاہور اور فوکل پرسن ڈینگی کنٹرول پروگرام شیخ زید پروفیسر ڈاکٹر فرخ اقبال، ایڈیشنل ڈائریکٹر وی بی ڈی( ویکٹر بورن ڈیزیز) ڈاکٹر اسلام ظفر اور ایم ایس میو ہسپتال ڈاکٹر امجد شہزاد سے گفتگو کی۔
 چیئرمین اینڈ ڈین شیخ زید ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر فرخ اقبال نے بتایا ’’حالیہ بارشوں کی وجہ سے یہ تشویش تو ضرور ہے کہ ڈینگی کی آبادی میں اضافے کے باعث ڈینگی وائرس پھیل سکتا ہے مگر ہم نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات کر رکھے ہیں۔ نئی آبادیاں، جہاں خالی پلاٹ ہیں، وہاں پر پانی جمع ہے پھر جو سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں وہاں پر بھی جگہ جگہ پانی کھڑا ہے اس صورتحال کو دیکھ کر ڈینگی وائرس کے پھیلنے کا امکان ضرور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے مختلف ذرائع سے لوگوں کو ڈینگی وائرس کے ذریعے آگاہی فراہم کر دی ہے اس لئے لوگ بھی اس معاملے میں خاصی احتیاط برتتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ بہرحال پچھلے دو تین سالوں میں ڈینگی وائرس کی جو صورتحال تھی ویسا خطرہ اب نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکومتی اقدامات اور لوگوں کو ڈینگی وائرس کے بارے میں آگاہی ہے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ مارچ میں ڈینگی وائرس سے لوگوں کے متاثر ہونے کا امکان ہو گا مگر ایسا نہیں ہوا مگر ہم اس کیلئے پوری طرح تیارتھے۔‘‘ پروفیسر ڈاکٹر فرخ اقبال نے بتایا ’’بخار میں مبتلا مریض تو ہسپتال آ رہے ہیں مگر زیادہ تر میںڈینگی وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ایک دو مریض ایسے ہیں جن میں ڈینگی وائرس تھا۔ جو مریض بخار میں آتا ہے اور جس کو دس دن سے کم بخار ہو اور اس کے علاوہ اس میں ڈینگی بخار کی علامات بھی پائی جائیں مثلاً جوڑوں میں درد، آنکھیں سرخ ہوں، جسم میں سرخ ریشز پڑے ہوں، نزلہ زکام وغیرہ ہو تو ایسے مریضوں کا پہلے این ایس آئی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ضرورت پڑے تو آئی جی ایم اور پھر پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ پی سی آر ٹیسٹ ڈینگی وائرس کی قسم جاننے کے لئے کیا جاتا ہے اور یہ ٹیسٹ صرف منتخب مریضوں کے ہی کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی مریض میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہو جائے اس کو ہم صرف پیراسیٹامول ہی دیتے ہیں۔ عام طور پر مریض ایک ہفتہ میں بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں پلیٹس لگوانے کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا۔ پچھلے سالوں میں پلیٹس کٹس کی قیمت 9 ہزار سے 50 ہزار روپے تک فروخت ہوئیں۔ حالانکہ ڈینگی بخار میں پلیٹس کٹس لگوانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ صرف ڈیڑھ دو ماہ یعنی ستمبر اور اکتوبر میں لوگوں کو ڈینگی مچھر کے حوالے سے احتیاط برتنے کی اشد ضرورت ہے۔ جیسے ہی سردی ہو گی یہ مچھر ختم ہو جائے گا۔ بہرحال ڈینگی کے حوالے سے اس وقت وبائی صورتحال کا سامنا نہیں ہے۔ شیخ زید ہسپتال میں 6 بستروں پر مشتمل ڈینگی وارڈ بنا دیا گیا ہے جن مریضوں کو ڈینگی بخار کے ساتھ خون آتا ہے اور پلیٹس کم ہونے کی صورت میں اس کو ایچ ڈی یو میں رکھنے کا بھی انتظام ہے۔ ڈینگی بخار کے جن مریضوں میں خون رسنے کے ساتھ بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے یا جن مریضوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے ان کو ہم آئی سی یو میں رکھتے ہیں۔ آئی سی یو میں ڈینگی بخار کے مریضوں کیلئے بستر مخصوص کر دیئے گئے ہیں۔‘‘
ایڈیشنل ڈائریکٹر وی بی ڈی (ویکٹر بورن ڈیزیز) ڈاکٹر اسلام ظفر کا کہنا ہے ’’بارشوں کی وجہ سے ڈینگی مچھر کی آبادی کے اضافے کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی ہونے کی بالکل ضرورت نہیں کیونکہ پنجاب حکومت نے ڈینگی وائرس سے نمٹنے کیلئے تمام انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لیے اعلیٰ ڈیپنڈنسی یونٹس فعال بنا دیئے گے ہیں۔ ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر ہسپتالوں میں ڈینگی وائرس کنٹرول کے پروگرام کے تحت اقدامات کئے جا چکے ہیں اور وہاں ڈینگی مریضوں کے علاج معالجے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ عملہ اور ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے ڈینگی وائرس کے پھیلنے کا امکان ضرور ہے کیونکہ اس سال 20 فیصد زیادہ بارش ہونے کی توقع تھی ۔ اس لیے حکومت پنجاب نے ڈینگی کنٹرول پروگرام کے تحت اپنی تیاری کی ہوئی ہے۔ جہاں جہاں ڈینگی لاروا کی تصدیق ہو رہی ہے اور ڈینگی وائرس کے کیسز آئے ہیں‘ وہاں پر IRS یعنی اسپرے کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں راوی ٹائون‘ داتا گنج بخش ٹائون اور نشتر ٹائون وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں پر جوہڑ‘ تالابوں میں پانی کھڑا ہے وہاں پر فنش ڈال رہے ہیں تا کہ ڈینگی مچھر کی آبادی میں اضافے کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اسپرے صرف ٹارگٹ علاقوں میں کر رہے ہیں جہاں لاورا کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس وقت تک پنجاب بھر سے 37 اور لاہور سے 12 مریضوں میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ آئندہ دنوں میں ڈینگی وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہو سکتا ہے مگر اس سے گھبرانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیا نے ڈینگی مچھر سے بچائو کیلئے لوگوں کو آگاہی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈینگی مچھر سے بچائو کیلئے احتیاط کرنا بہت ضروری ہے۔ پانی کی ٹینکی‘ بالٹی‘ ڈرم‘ کنستر جن میں صاف پانی ہے اور پھولدان‘ گملے کے نیچے رکھے ہوئے برتن‘ بوتلوں میں رکھے گئے پودوں کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھیں تاکہ مچھر ان میں داخل نہ ہو سکے۔ مچھروں سے بچائو کیلئے کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں لگوائیں۔ ڈینگی کے مچھر کی افزائش صاف پانی میں ہوتی ہے‘ لہٰذا مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں۔‘‘ڈاکٹر اسلام ظفر نے بتایا ’’مریضوں میں ڈینگی وائرس ٹو اور تھری کی تصدیق ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو پہلے ڈینگی بخار ہو چکا ہے ان کو دوبارہ ڈینگی ہونے کا احتمال نہیں ہے۔ اس وقت جتنے بھی ڈینگی بخار کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں‘ ان میں سے کسی ایک مریض کو پہلے ڈینگی نہیں ہوا تھا۔ ڈینگی مچھر سے بچائو کیلئے ستمبر اور اکتوبر کا مہینہ بہت اہم ہے۔ نومبر میں سردی ہونے سے یہ مچھر خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو ان مہینوں میں ڈینگی مچھرسے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔‘‘
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر امجد شہزاد نے بتایا ’’ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریض ہسپتال میں آنے شروع ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی تک ڈینگی وائرس کے کنفرم دس کیسز ہیں ان مریضوں کا تعلق فیروزوالا، رانا ٹائون، بادامی باغ اور شاہدرہ سے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مریض اُسی علاقے سے ہسپتال آئے ہیں جہاں سے پچھلے سال بھی ڈینگی بخار کے مریض آئے تھے۔ اس وقت لنڈا بازار سے پہلی مرتبہ ڈینگی بخار کا مریض آیا ہے۔ ہم نے ہسپتال میں ڈینگی بخار کے مریضوں کے علاج معالج کے تمام اقدامات کر لئے ہیں۔ موسم کے پیش نظر ہم نے ڈینگی مریضوں کے علاج معالج کا انتظام پہلے سے آٹھ دس گنا زیادہ کیا ہے۔ مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق تو روزانہ ہسپتال کا چکر لگاتے ہیں ان کے علاوہ سیکرٹری صحت اور پنجاب ڈینگی ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کے ہیڈ وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسرڈاکٹر فیصل مسعود بھی ہسپتال آ کر ڈینگی مریضوں کے لئے علاج معالجے کے کئے گئے انتظامات کا باقاعدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔‘‘
ڈینگی بخار کی علامات میں اچانک تیز بخار، جو 104 تا 105تک ہوسکتا ہے اور 4تا 7دن تک رہ سکتا ہے، 2تا 5دن کے عرصے میں جسم پر سرخ نشانات کا نمودار ہونا جو خسرہ کے دانوں سے مشابہ ہوتے ہیں، جوڑوں میں درد، پٹھوں میں کچھائو، سردرد خصوصاً آنکھوں کے پچھلے حصوں میں درد اور تھکن اور قے آناشامل ہیں۔ڈینگی بخار کے علاج کے لئے کوئی خاص دوا دستیاب نہیں ہے۔ صرف جوسز اور پانی پینا ہی مؤثر علاج ہے۔ ڈینگی بخار میں مریض 7یا 10دن سے زائد دن کے بعد ٹھیک ہوجاتا ہے۔ یہ بات یادرہے کہ بروقت علاج کرنے سے ڈینگی بخار قطعاً جان لیوا نہیں۔ پورا جسم ڈھانپنے والے کپڑے پہننے، مچھر مار سپرے اور مچھردانی کے استعمال سے ڈینگی سے بچائو ممکن ہے۔ڈینگی کے بعض مریضوں میں یہ بیماری خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے۔ خاص طور پر جب یہ ھیمرجک فیور میں تبدیل ہوتی ہے جس سے جسم میں بلیڈنگ، بلڈ پلیٹ لیٹس کی کمی اور خطرناک حدتک بلڈپریشر میں کمی ہوجاتی ہے اور یہ مریض کے ڈینگی شاک سنڈ روم میں مبتلا ہونے کی علامات ہیں۔ ڈینگی بخار کی صحیح تشخیص کیلئے اینٹی باڈی کا ٹسٹ، کمپلیٹ بلڈ کائونٹ (سی بی سی) اورپی سی آر شامل ہیں۔ زیادہ بخار کو کم کرنے کیلئے اسیٹا مائنو فین (ٹائیلنال) کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ڈینگی بخار میں مریض 7یا س سے زائد دن کے بعد ٹھیک ہوجاتا ہے ڈینگی عموماً چار مختلف قسم کے وائرس سے ہوتا ہے ایک وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مریض اس وائرس سے تو قوت مدافعت حاصل کرلیتا ہے تاہم دیگر تین وائرس سے انتہائی غیر محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی قوت مدافعت ان وائرس سے خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے اور مریض کیلئے پچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ڈینگی سے بچائو کی ویکسین ابھی تک دریافت نہیں ہوئی تاہم ڈینگی مچھر کی پرورش پانے کی جگہوں کو ختم کرکے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے
بچوں میں ڈینگی بخار کی علامات کا من کولڈ متلی اور پیچش کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں اور عام طور پر بڑوں سے کہیں زیادہ شدید ہوتی ہیں۔ ایڈیز ایجپٹائی نامی مادہ مچھر اپنے انڈے ایسی جگہوں پر دیتی ہے جہاں عارضی طور پر پانی کھڑا ہو اور جن کا انسانوں کے ساتھ قریبی تعلق ہو کیونکہ یہ انسانی خون سے خوراک حاصل کرتی ہے۔ صحت مند بچے اور خواتین مردوں کی نسبت ڈینگی سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ شوگر اور دمہ کے مریضوں کیلئے ڈینگی زیادہ مہلک ہے۔ جب ڈینگی وائر س سے متاثر مچھر کسی شخص کو کاٹتا ہے تو ڈینگی وائرس مچھر کے سلایئوا کے ساتھ جسم میں داخل ہوتاہے اور پھر وائٹ سیلز کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتا ہے جس کے باعث فلو، نزلہ، بخار اور شدید درد کی علامات نمودار ہوتی ہیں۔ شدید انفیکشن کی صورت میں انسانی جگر اور ہڈیوں کا گودا بھی متاثر ہوتاہے جس کے باعث خون کی نالیوں میں خون کی گردش کم ہوتی ہے اور بلڈ پریشر اس قدر کم ہوجاتا ہے کہ جسم کے اہم اعضاء کو خون کی سپلائی رک جاتی ہے اور انہیں نارمل کام کرنے کیلئے مناسب اور درکارخون میسر نہیں آتا، مزید براں بون میرو کے صحیح طور پر کام نہ کرنے کے باعث پلیٹ لیٹس میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے جسم میں بلیڈنگ ہوتی ہے۔
2012میں لاہور میں اس موذی مرض نے جس شدت کے ساتھ تباہی مچائی وہ ناقابل بیان ہے۔ حکومت پنجاب نے اس وائرس پر قابو پانے کیلئے مختلف ممالک کے ٹیموں سے بھی مدد لی۔ 2012ء کی نسبت 2013ء میں بروقت اقدامات کرنے سے اس موذی مرض سے عوام کو خاطر خواہ چھٹکارہ ملا جس کا تمام کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو جاتا ہے۔ جن کی بے پناہ صلاحیتوں کی بدولت پنجاب کے وہ تمام اضلاع میں جہاں ڈینگی وائرس پھیلنے کا احتمال تھا وہاں مناسب اقدامات کے گئے جس سے اس موذی وائرس کا تدراک ممکن ہوسکا۔
دنیا میں 32ہزار قسم کے مچھر پائے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں 130قسم کے مچھر پائے جاتے ہیں جس میں ایک خاص قسم کے مچھر پائے جاتے ہیں جس میں ایک قسم کا مادہ مچھر کے ذریعے پھیلنے والے وائرس میں لوگ ڈینگی وائرس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ڈینگی وائرس پھیلانے والا مچھر سورج طلوع ہونے سے چند گھنٹے قبل اور غروب آفتاب کے چند گھنٹے بعد اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ڈینگی وائرس پر کنٹرول کرنے کیلئے حکومت پنجاب کے اقدامات ایک طرف، لیکن اس جان لیوا مرض سے مکمل چھٹکارے کیلئے عوامی تعاون بھی ناگزیز سے عوام کو اس وبائی مرض وائرس پھیلانے والی تمام وجوہات کو نوٹس لیتے ہوئے حکومت کا مکمل ساتھ دینا ہوگا۔ عوام کو مکمل ایسے حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا ہوگا۔ جس سے اس وائرس کے پھیلنے کا احتمال ہو حکومت نے اس وائرس کے تدراک اور اس جان لیوا مرض میں مبتلا مریضوں کو طبی سہولت کی فراہمی کیلئے احسن اقدامات کئے ہیں پاکستان میں وافر مقدار میں تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی جاری ہیں۔
عوام کو چاہیے کہ اس مرض کی اگر علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں کہ اس مرض کو پھیلنے سے قبل ہی کنٹرول کیا جاسکے۔

مزیدخبریں