سیاست کے عمل کا گہرا تعلق اس اجتماعی سوچ وفکر ، سماجی اور ادارتی کلچر کے ساتھ ہے جس میں ارباب بست وکشاد مفاداتی جمہوریت کے رومانس میں ایسا وجدان حاصل کرتے ہیں جسکے ذریعے وہ ریاستی اداروں پر قابض ہو کر حاکمیت قائم کرتے ہیں اور اس مخصوص کلچر کی تحریک سے ناآشنا عوام جمہوریت کے مغالطے میں استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے بیگاری بن جاتے ہیں۔ ریاستی ادارے عوام کے گروہوں کی وہ تنظیمیں ہوتی ہیں جو عوام کی فلاح وبہبود میں اجتماعی سماجی اور معاشی پروگراموں کو اس انداز میں وضع کرتی ہیں کہ جس سے ہر فرد ریاست کے منصفانہ کردار کی وجہ سے اپنے جائز حقوق کا تحفظ حاصل کرتا ہے اور بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت ریاست میں رہنے والے دوسرے افراد، گروہوں اور قوموں کے ساتھ جیو اور جینے دو کے اصول کے تحت زندگی بسر کرتا ہے مگر جیسے ہی سماجی اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے انسانوں نے مل جل کر رہنے کیلئے قبائل سے جدید ریاست کے ارتقائی عمل میں اپنے آپکو ریاست کے تابع کیا تو بالادست طبقوں نے اپنی دولت اور سرمایے کے بل بوتے پر فیصلہ کن طاقت حاصل کی اور دوسرے انسانوں کو غلام بنا کر یا دوسری کمزور قوموں پر غلبہ پا کر انکے افراد اور قدرتی ذرائع سے استفادہ کر کے ہمیشہ فاتحین کا روپ اختیار کرتے چلے گئے۔ قرون وسطیٰ کے سیاسی اور سماجی اداروں کے نظام پر نظر ڈالیں تو اقتدار اور سیاست میں مالیاتی راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ فاتحین کیلئے الگ قوانین ہیں اور مفتوحین کیلئے الگ، باندیوں اور غلاموں کیلئے الگ حقوق ہیں اور صاحب نسب خواتین کیلئے الگ قوانین، مال غنیمت میں مفتوحہ رعیت کی مائوں، بہنوں اور بیٹوں کو لونڈیاں اور مردوں کو غلام بنا لینا اور انسانی رشوت کی تذلیل کوئی مسئلہ نہیں، لوٹ کھسوٹ کے اس کلچر میں قناعت اور صبر محض مجبوری ہوتی ہے۔ ارتقائی عمل سے سوسائٹی فیوڈ لائز ہوئی تو خاندانوں، قبیلوں، نسلوں اور گروپوں حتیٰ کہ مذہبی فرقوں کی عصبیتیں ناگزیر ہوگئیں مگر انقلاب فرانس کے بعد جاگیردارانہ نظام کو یورپ میں شدید دھچکا لگا برصغیر خصوصاً وہ علاقے جو پاکستان میں شامل ہیں سندھ اور جنوبی پنجاب وہاں جاگیردارانہ نظام کا تسلط برقرار رہا اور اس کلچر کے فروغ سے جو وسیع اور عریض زمین نہیں بھی رکھتا تھا، جاگیردارانہ سوچ اور طاقت کے زور پر مقہور اور مجبور لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے سلسلے دراز کرتا رہا۔
آج بھی سندھ میں بڑے بڑے زمینداروں کی نجی جیلیں ہیں ہاریوں اور مزارعوں کی حالت قرون وسطیٰ کے غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ جنوبی پنجاب میں توجاگیردار پیر اور فقیر بھی ہیں۔ لہٰذا عام انسان تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ اپنے آقائوں کیخلاف بغاوت کا پرچم بلند کریں وہ تو انکے دیدار کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ نذر کرنے پر تیار رہتے ہیں اور آج بھی پاکستان کے اقتدار میں بڑے بڑے زمینداروں کی نسل درنسل شمولیت برقرار ہے۔ لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مخدوم امین فہیم جیسے جاگیردار گدی نشینوں پر کرپشن اور قومی خزانے کو لوٹنے پر ان کی اپنے سیاسی حلقوں میں سبکی ہوگی یا ان کا اثرورسوخ کم ہو جائیگا۔ ایسا ممکن نہیں ہے یہی وجہ تھی کہ فیوڈل کلچر کو طاقت اور اقتدار کے کھیل سے بالادستی ختم کرنے کیلئے صنعتی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے بل بوتے پر ابھرنے والے سنہری سیاستدانوں نے اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنا شروع کردیا، پاکستان میں پیپلزپارٹی کے جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ 80 کی دہائی میں صنعت ساز گھرانے سے وابستہ نواز شریف کو سامنے لائی اور 1985ء میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ جاگیردار حسن محمود جو رحیم یار خاں کے مخدوم تھے ان کے مقابلے پر نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے اور جب بینظیر بھٹو کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی تو آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کو اس بات پر قائل کر لیا کہ نواز شریف چونکہ صنعتکاروں اور تاجروں کے نمائندے ہیں لہٰذا ان کا سیاسی مقابلہ کرنا تبھی ممکن ہوگا کہ ہم بھی ’’سرکار‘‘ کے وسائل سے استفادہ کریں اور سیاست میں سرمایے کی طاقت اور مالیاتی راز کی چابی آصف علی زرداری نے بے پناہ صعوبتوں کے بعد حاصل تو کرلی مگر بدقسمتی سے آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مقابل کارپورٹریٹ کلچر کا نمائندہ عمران خان سیاست میں وارد ہوگیا۔
کارپوریٹ کلچر میں بڑی بڑی کمپنیوں کی نمائندگی کرنیوالے اسد عمر جیسے ٹینکو کریٹ اپنی فنی مہارت اور خاندانی روابط کی بنا پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کی پاکستان میں نگرانی کرتے ہیں، معین قریشی، شوکت عزیز ڈاکٹر حفیظ اور شاہد برکی بھی بین الاقوامی کارپوریٹ اداروں کی پاکستان میں مفادات کے تحفظ کیلئے کام کرتے ہیں اور اسکے بدلے انہیں اور انکے بچوں کو ان اداروں میں اعلیٰ ملازمتوں کا تحفظ حاصل ہوتا ہے لہٰذا قدیم جاگیرداروں، جدید زمینداروں، چھوٹے صنعت کاروں اور مقامی تاجروں اور کارخانے داروں کے مقابلے میں بین الاقوامی کارپوریٹ اداروں کیلئے سیاست کرنیوالوں کی کریڈیبلٹی اس لئے بہتر ہوتی ہے کہ ان پر کرپشن کے براہ راست الزامات لگانے ممکن نہیں ہوتے ہیں مثلاً عمران خان کو اپنے سیاسی اخراجات پورے کرنے کیلئے کے پی کے وسائل لوٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس طرح پیپلزپارٹی سندھ میں ماڑ دھاڑ کررہی ہے اور پنجاب میں میگا پراجیکٹس کی تعمیروترقی میں واضح شکوک وشبہات ہیں۔ نندی پور پراجیکٹ ہو، شہروں میں صفائی اور ستھرائی کے ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کیلئے ابراک کو ٹھیکے ، پولٹری اور دودھ کے کاروبار پر حکمران طبقے کی اجارہ داری، پنجاب اور سندھ کے حکمران طبقے کے فرنٹ مینوں کا اربوں روپوں کاکالادھن غیر قانونی طریقے سے باہر لے جانا اور باہر سے ترسیلات زر کے قانون کے تحت واپس آنا۔
ان سیاستدانوں کی طرح بڑی بڑی تعلیمی چینوں، بیکریوں کے مالکان کے اربوں ڈالرز بھی انہیں کوئی دبئی اور یورپ سے بھیجتا ہے، پنجاب کے سابق گورنر چودھری سرور کی خاندان کی کمپنیوں کو دوبئی سے ترسیلات زر لندن آئے تو انکے خاندان کے قریبی عزیز واقارب کو کئی سال ٹیکسوں میں گھپلوں پر جیلوں کی ہوا کھانا پڑی مگر پاکستان میں کرپشن کا پیسہ جہاں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہا ہے وہیں پر حکمرانوں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ سیاست میں مالیاتی زر کی بدولت بڑی مچھلی چھوٹی مچھی کو نگل لیتی ہے۔ جہانگیر ترین نے ضمنی الیکشن میں لودھراں میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے دونوں صوبائی اسمبلی کے امیدواروں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلیا، سیاست میں مالیاتی زر کے ذریعے ایم کیو ایم نے کراچی میں 30سال تک متوازی حکومت قائم کیے رکھی، سر پر ہما کے بغیر الطاف حسین نے جس طرح کراچی میں فسطائی جبر اور خوف قائم کئے رکھا اسکی مثال شاید کسی اور مہذب جمہوری ملک میں کہیں نہ ملے۔
ایسے میں امید و رجاء کی ایک کرن جنرل راحیل شریف نے روشن کی ہے۔ کیا آج کے میر جعفر اور میر صادق جن کے پاس سیاست کے مالیاتی راز کی چابی ہے وہ پاکستان کو روشن چراغ بننے سے روکنے کیلئے اپنا گھنائونا کردار ادا نہیں کرتے رہیں گے۔
سیاست کا مالیاتی راز
Sep 13, 2015