پرا نا ،بہت پرانا لطیفہ ہے ؛ ایک جرمن، انگریز اور پاکستانی کہیں بیٹھے اپنے اپنے ملک کی پولیس کے کارنامے بیان کر رہے تھے۔ جرمن نے کہا کہ اسکے ملک کی پولیس بڑے سے جرم کا کھوج ایک ہفتے میں لگا لیتی ہے۔ انگریز بولا’ سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس تین دن میں مجرم تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ انگریزآج زندہ ہوتا تو الطاف حسین کے لٹکے ہوئے کیس دیکھ کر شرم سے ڈوب مرتا۔ پاکستانی نے کہا ’یہ کیا کارکردگی ہوئی، ہماری پولیس کوجرم کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اس کا علم ہوتا ہے‘۔
اس کی ایک تازہ اور زندہ مثال ملاحظہ فرمائیے ؛ لاہور میں ایک گھر کے سامنے سے رات کو کرولا ٹوڈی چوری ہو گئی ،کار مالک سویا رہا۔ اس واردات کے بعد وہ کئی دن نہیں سو سکا۔ جب جاگنے کا وقت تھا سویا رہا جب گاڑی ہی نہیں تو چوری کیا ہونا تھی تو یہ صاحب جاگتے رہے۔ اگلے روز اِدھر جا اُدھر جا اِس سے پوچھ اُس سے پوچھ، شاید کسی مرد مومن کے پاس بھی ہو جسکی نگاہ سے تقدیر بدل جاتی ہیں۔ مگر گاڑی ملنی تھی نہ ملی۔ دہشت گردی میں استعمال ہونے کے خدشے نے سر اٹھایا توکار مالک کا دل زور سے دھڑکنے لگا،بھاگم بھاگ تھانے جا پہنچا۔ ایف آئی آر درج کرائی تو سانس میں سانس آئی۔کچھ امیر لوگ بھی مہنگی نقد گاڑی خرید کرٹریکر لگوانے اور انشورنس کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ تھوڑی سی بچت عموماًمہنگی اور کبھی تو بہت ہی پڑتی ہے۔بنک لون سے گاڑی لیںتو ٹریکر ، انشورنس ضروری اور مجبوری ہے۔یہ صاحب ایف آئی آر درج کراکے ابھی گھر کے راستے میں تھے کہ 15منٹ بعد موبائل پر کال آ گئی ”آپکی گاڑی پشاور میں ہمارے پاس ہے۔ ”چوروں کے پاس میرا موبائل نمبر کیسے پہنچا“۔ کار مالک کے ذہن میں اس سوال نے کنڈلی مار لی۔
بہر حال یہ لوگ پشاورگئے اور تاوان ادا کر کے گاڑی لے آئے۔چوروں نے کاغذات واپس نہیں کئے تھے چنانچہ کاغذات بنوانے تک گاڑی کو چھپا دیا اسی دوران تفتیشی کا فون آ گیا۔ ”آپ کو کار مل گئی مبارک ہو‘ ہمارا خرچہ دے دیں،،۔ اس فون کے ساتھ ہی ذہن میں گرہ کی طرح بیٹھی کنڈلی کھل گئی ”میرا موبائل نمبر چوروں کے پاس کیسے پہنچا،،۔
یہ پولیس کا عمومی رویہ ہے۔ صرف تفتیشی لیول کے افسروں و اہلکاروں کا نہیں، بطور ایک محکمہ اور ادارے کے ۔ موٹر وے پولیس اوروارڈنز میں راشی لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان میں راشی بندہ کو چھوڑ دیا جائے، وہ وہاں ہاتھ دکھانہیں سکتا۔ پولیس میں کوئی ایماندار اپنا ایمان بچا نہیں سکتا ۔ اگر ایسا کوئی ہے تو اسے ولی مان لیں۔ سپاہی سے آئی جی پر ہی کرپشن یا منتھلی ختم نہیں ہوتی۔ اس محکمے کے سیکرٹری اور وزیر تک مستفید اور مستفیض ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پولیس کیلئے فرائض سے سرمو انحراف ممکن نہیں ہے۔
ہم پاکستان کے فلاحی ریاست ہونے کی بات کرتے ہیں۔ فلاحی ریاست کی سب سے بڑی خوبی نظام عدل کی کارفرمائی ہے۔ ہر شہری کی انصاف تک دسترس ہوتی ہے،فوری اور مفت انصافمیسر ہوتا ہے۔ فلاحی ریاست کا کم سے کم لیول یہ ہے کہ افراد کو انصاف کی امید ہو۔ ظلم اور ظلمت کے معاشرے میں شہریوں کو انصاف کی امیدہی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں فیصلے اور منصف بک جاتے ہیں۔پولیس کا ایک کردارمنصف کاہے۔ عدالتوں کی باری بعد میںآتی ہے۔ پولیس اپنا کردار ادا کرتی ہے نہ عدالتیں میزان کو اس طرح تھامے ہوئے ہیں جس کا قرآن وحدیث میں حکم دیا گیاہے۔
ارشادربانی ہے؛ اے ایمان والو انصاف پر قائم رہو۔ایک موقع پر رسول اللہ نے فرمایا تھا’ تم سے پہلے کے لوگ اسلئے ہلاک ہوگئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد(سزا) قائم کرتے تھے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہؓ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ لیتا‘۔
انصاف کے حوالے سے جو معیارات قرآن و احادیث نے مقرر کئے‘ کیا ان کا عشر عشیر بھی ہمیں ملک‘ معاشرے اور اپنی زندگیوں میں نظر آتا ہے؟ انصاف پر مامور ادارے اور افراد کے کردار سے لگتا ہے جن کے ہاتھ میں انکی ترقی اورجس اولادکی خاطردولت کے انبار لگاتے انہوں نے جان خدا کو نہیں، ان کو دینی ہے۔ ان کی زندگیوں میں دھن دولت ہی میزانِ عدل ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کو سزاﺅں کا خوف نہیں ہے اس لئے بے دھڑک جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہمارے نوے فیصد سے زیادہ مسائل انصاف کے دور دورہ سے حل ہوسکتے ہیں مگر اپنے دنیاوی مفادات پر زد پڑنے کے اندیشے سے حاکم ‘ حکام اور عمال اپنے رب کے دیئے ہوئے اختیار کو دیانتداری سے استعمال کرنے سے روگردانی کرتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم ہر تیسرے پاکستانی سے فراڈ ہو چکا ہے۔ ان پاکستانیوں کو انصاف نہ دلانے پر گورنر چودھری سرور نے وہ منصب چھوڑ دیا جسکے حصول کیلئے ہمارے ہاں سو قتل کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔اسکے بعد بھی فراڈ جاری ہیں جو پولیس اورمنصفوںکے تعاون کے بغیر ہوہی نہیں سکتے۔
لاہور میں آجکل عائشہ ممتاز کی ہوٹلوں پر چھاپوں کی بڑی دھوم ہے۔ کئی ہوٹلوں پر دوسری اور تیسری بار چھاپہ مارا گیا تو پہلے جرم کی طرح دوسری اور تیسری بار بھی جرمانہ کر دیا گیا۔ جتنا جرمانہ کیا جاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ ایک دن میں آمدن ہے اس لئے کوئی پروا نہیں۔ دودھ کی کئی گاڑیاں بھی اس ٹیم نے الٹائی ہیں مگرہے کہیں خالص دودھ دستیاب؟۔حرام گوشت کئی سال سے پکڑا جارہا ہے مگر سزائیں نہ ہونے سے یہ دھندارُک نہیں سکا۔ڈی سی او صاحب حالیہ مہینوں ایکشن میں آئے،دکانداروں کو ریٹ لسٹ دی اس میں سرخ ثابت مرچ کا ریٹ 350 جبکہ پسی ہوئی کا 330 روپے تھا۔ پسوانے والے کو ملاوٹ کا مارجن دیا گیا؟ شیر شاہ سوری نے ملاوٹ کی نسبت سے جسم کا حصہ کاٹنے کا حکم دیا تو ملاوٹ کا ریاست میں نام ہی نہ رہا۔
اگر عدل کا دو ٹوک اور بے لاگ نظام رائج ہو جائے تو ملک بلا شبہ چھوٹے بڑے تمام جرائم سے پاک ہوکر ترقی و خوشحالی کی معراج پر پہنچ سکتا ہے۔ کراچی میں انصاف کا بول بالاہوتا تو ہزاروں شہری کسی کی انا اور حکومتوں کی مصلحتوں کی بھینٹ نہ چڑھتے۔ آپ موٹر ویز بنا لیں، میٹروز چلا دیں، گوادر بندرگاہ آپریشنل کرا دیں‘ راہداری بنا لیں جو بھی کرلیں انصاف کی عملداری کے بغیر عام آدمی کی خوشحالی اور اقتدار کی بقاءممکن نہیں ہے۔