لاہور (خبرنگار+ نیوز ایجنسیاں) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ حکمران نہ عوام کے خادم ہیں نہ ہی اعلیٰ ہیں۔مزدور، کسان، غریب کے دشمن، پاکستان کے دشمن سے کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی ، جو کشمیر کی بات نہیں کرتا اس سے مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔ ان کی پالیسیاں زراعت اور کسان دشمن ہیں۔کشکول توڑنے کی باتیں کرنے والے اب قرضہ لے کر بغلیں بجا رہے ہیں۔ وہ بلاول ہائوس لاہور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے کنونشن سے خطاب کررہے تھے۔ بلاول نے کہا کہ پاکستان کو آمریت کے پجاریوں اور دہشتگردوں کے حواریوں کے حوالے کر دیا گیا جبکہ دوسری طرف ہماری سرحدوں پر دشمن ہمارے معصوم شہریوں کو مار رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکمران کسانوں کو معاوضہ نہیں دلا سکتے تو پھر ان کو حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں۔ حکمران میٹروبس دکھا کر 20کروڑ عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ بھٹو نے کہا کہ تھا کہ وہ کسانوں سے آلو خرید کر سمندر میں پھینک دیں گی لیکن ان کا نقصان نہیں ہونے دیں گی۔ مگر آج خادم اعلیٰ کے دور میں کاشتکار آلوئوں کو سڑکوں پر پھینکنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کسانوں کو سبسڈی کی شکل میں رعایت دی جاتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کسان دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ پٹرول کی قیمتوں کا بھی عوام کو فائدہ نہیں دیا گیا اور پٹرول پر 23 اور ڈیزل پر 30 روپے ٹیکس لگایا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت غریبوں کو لوٹ لیتی ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ یہ حکومت تاجروں کی دوست ہے لیکن اب تاجر بھی سراپا احتجاج ہیں اور شٹر ڈائون کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کہاں مل رہی ہے میاں شہباز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سالوں میں نہیں بلکہ 6 مہینوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پالیں گے۔ اگر وہ قابو نہ پاسکے تو وہ اپنا نام بدل دیں گے۔انہوں نے کہا کہ اب میں ان کو کس نام سے پکاروں۔ انہوں نے کہا کہ نندی پور پراجیکٹ کا کیا ہوا جس پر 22ارب روپے کی بجائے 81ارب خرچ ہوئے ہیں اور عوام میاں صاحب سے پوچھتی ہے کہ یہ پراجیکٹ بجلی پیدا کیوں نہیں کر رہا اور نیب اور ایف آئی اے کہاں سوئی ہوئی ہے اور ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ بڑے بڑے سرکاری اداروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سربراہان ابھی تک تعینات نہیں کئے گئے اور میرٹ کہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ان کو اپنا رشتہ دار مل جائے گا تو وہ ان اداروں پر ان کو تعینات کر دیں گے۔ انہوں نے’’ضرب عضب ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ 7 سال پہلے شروع ہو گیا تھا جب پیپلز پارٹی کے دور میں سوات اور وزیرستان میں دہشتگردی کے خلاف کامیاب آپریشن کیا تھا۔ میں شہیدوں کا وارث ہوں۔ ہم پر دہشتگردی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، ہمیں دہشتگردوں کے ساتھ مت ملائو،قانون اور انصاف کی بات کرو۔ انہوں نے کہا کہ صدر زرداری نے کہا ہے کہ جو کرنا ہے کرو لیکن انتقام نہیں ہونا چاہیے بلکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی انصاف چاہتے ہیں کیونکہ ان کے نانا اور انکی والدہ کو شہید کیا گیا لیکن انصاف نہیں ملا۔ اصغر خان کے کیس کا کیا ہوا ہمیں انصاف نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اب بھی غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی سیاست کرتی ہے۔ انہوں نے یاددلایا کہ ذدالفقار علی بھٹو نے لاہور میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے خلاف آواز اٹھائی اور کہا کہ پیپلز پارٹی اس نظام کو نہیں چلنے دیگی اور حقوق کی جنگ جاری رہے گی اور ہم یہ جنگ جیتیں گے۔میاں منظور وٹو نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں اس نوعیت کا خطاب ان کا پہلا خطاب ہے۔ میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی تھی اور یہ پارٹی کا قلعہ تھا۔ ٹی وی کے مطابق بلاول نے کہا بابا بلھے شاہ کی دھرتی کو رجعت پسندوں کے حوالے کردیا گیا۔ بعدازاں بلاول اچانک تقریر ختم کرکے سکیورٹی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پنڈال میں چلے گئے اور کارکنوں میں گھل مل گئے۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق بلاول نے کہا پنجاب پر ایسے حکمران مسلط کیے گئے جو بابا بلھے شاہ کی دھرتی کیلئے سزا سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا لاہور کو دہشت گردوں کے یادوں کے حوالے کر دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سابق ڈپٹی اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی شوکت علی بسرا نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو کو تبدیل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے اس حوالے سے افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ بلاول ہائوس کے ترجمان اعجاز درانی نے کہا ہے کہ لاہور میں ہفتہ کو بلاول بھٹو زرداری کا خطاب تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ مستقبل کی سیاست میں اپنے خون سے قومی پرچم سر بلند کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کو عوام خود خاک میں ملا دیں گے۔