1۔ ہوا تیز ہے۔ سمندر سے اٹھتی ہوئی پرنم ہوا کا عکس کسی حسین بوسے کی طرح ہے۔ شاہ خاور نے آوارہ بادلوں کو روئی کے گالوں کی طرح دھنک ڈالا ہے۔ لیکن اسکی کرنوں میں تپش نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی جسم کو ہلکے ہلکے دھیرے دھیرے ٹکور کر رہا ہو۔ میں برطانیہ کے آخری خوبصورت جزیرے آئیل آف وائیٹ کے شر شینکلن کی ’BEACH‘ پر بیٹھا ہوا ہوں۔ ایک طرف نیلگوں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ دوسری طرف پہاڑ کی چوٹی پر شینکلن کا قصبہ ہے۔ سرسبز تن آور درختوں میں گھرا ہوا، میلوں تک پھیلی ہوئی بیچ کی ریت سفید ہے دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے سیاح موج مستی میں مگن ہیں۔ سرخ اور سفید کاسٹیومز میں ملبوس جواں جسم سویمنگ کر رہے ہیں۔ میں نے آسٹریلیا کی بانڈے بیچ کے متعلق لکھا تھا۔ اس کا سمندر ڈان حوان ہے۔ کیسا نووا ہے جو ہزاروں حسیناو¿ں سے ہر روز گلے ملتا ہے۔ شینکلن کا سمندر ڈان حوان تو نہیں ہے لیکن جس بغل گیر ہو جائے تو وہ اس حسین ملاقات کو کبھی ہیں بھولتا۔
2۔ محسن نقوی نے لکھا تھا....
شاید کیا کسی نے ہے بخل زمیں پہ طنز
گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر
یہاں آکر طنز حیرت میں بدل جاتا ہے۔ حیرت حسرتوں میں ڈھل جاتی ہے۔ جزیرے کے اندر جزیرہ نکل آیا ہے۔ برطانیہ خود ایک جزیرہ ہے۔ ہزار ہا برس سے اسکے پانیوں نے ملک کی حفاظت کی ہے۔ ہسپانوی آرمیڈا ملک کی سرحدوں کو نہ چُھو سکا اور غرق آب ہوگیا۔ ہٹلر کا غرور پیوندِ خاک ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس نے سارے یورپ کو روند ڈالا۔ روس کو مارتا مارتا ماسکو تک جا پہنچا۔ پولینڈ کا پول چند دن میں کھول ڈالا، ہنگری کو بھوکے کتے کی طرح چبا ڈالا۔ ناروے کی نار پہلے ہلے میں ہی سرد پڑ گئی۔ وہ صرف Way رہ گیا، جس پر اس چلتے ہوئے اس کی فوجیں خراماں خراماں اوسلو تک جا پہنچیں۔ فرانس کی دفاعی Magiwotdine جرمن فوجوں کی پیش قدمی نہ روک سکی۔ وہ شانزا لیزے جہاں فرنچ مرد و زن شام کو چہل قدمی کیا کرتے تھے، جرمن فوجی بوٹوں کی دھمک سے لرز اٹھا۔ شہر کی معطر فضا میں بارود کی بو پھیل گئی۔ کیلے پہنچ کر جرمنوں کو اندازہ ہوا کہ یہاں پانی مرتا ہے۔ انگلش چینل کو عبور کرنا انکے بس کی بات نہیں تھی۔ اسکے بعد جو ہوا وہ تاریخ عبرت کا ایک المناک باب ہے۔
3۔ حسین قدرتی مناظر کے علاوہ بھی یہ جزیرہ کئی اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے Swinburne اور پٹنی سن جیسے بڑے شاعروں نے یہاں آ کر سکونت اختیار کی۔ ملکہ وکٹوریاں کو تو اس علاقے سے عشق ہو گیا تھا، گرمی کی چھٹیاں یہاں گزارتی تھی۔ اس نے اپنی رہائش کیلئے ایک خوبصورت محل بنوایا Osborn Palace House جس کو آج کل میوزیم میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ علاقہ جہاز رانی کی صنعت کیلئے بھی مشہور ہے۔ ایک طویل عرصے تک دنیا کے ممالک یہاں سے جہاز بنواتے رہے۔ برطانیہ کے سب سے بڑے میلے کا انعقاد بھی ہر سال یہاں پر ہوتا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے ڈانیا سور کے ڈھانچے بھی دریافت کئے ہیں۔ کیا عجیب وقت ہو گا جب انسانوں کی جگہ دیوہیکل جانور سمندر کے شفاف پانی میں اشنان کرتے ہونگے۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ نارمن خاندان کی ملکیت تھا۔ 1293ءسے پہلے یہ آزاد ریاست تھی۔ لیکن زیادہ دیر تک یہ اپنی خودمختاری قائم نہ رکھ سکی۔ وہ برطانیہ جس کی ایمپائر میں سورج کبھی نہ ڈوبتا تھا۔ اس کو کیسے نظر انداز کر سکتا تھا۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے دور دراز علاقے بھی اسکے تسلط سے نہ بچ سکے۔آج کل اس جزیرے میں پہنچنا آسان ہے۔ لندن سے بورٹس ماﺅتھ کےلئے ٹرین سروس ہے۔ پورٹس ماﺅتھ سے فیری سروس ہے۔ جہاز نما کشتیاں سیاحوں کو پیررائیڈ تک لے آتی ہیں۔ یہاں سے پھر ریل کا سفر شروع ہوتا ہے۔ پیر رائیڈ سے شیلکن تک آٹھ ریلوے سٹیشن آتے ہیں۔ انگریز کی قدامت پسندی مشہور ہے۔ ریل کے ڈبوں کو پرانا انجن کھینچتا ہے۔ چھک چھک کو کو کرتا ہوا۔ 150 میل فی گھنٹہ کی ٹرین سے اتر کر جب آدمی اس ریل گاڑی میں بیٹھتا ہے تو سارے وجود میں گدگدیاں ہونے لگتی ہیں۔
4۔ میں اپنے دوست راشد حسین کی دعوت پر یہاں آیا ہوں۔ ان کا یہاں پر ہوٹل ہے۔ ملبورن آرڈر دی۔ دو ایکٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے اس ہوٹل کے بیشر کمروں کی کھڑیاں سمندر کی طرف کھلتی ہیں۔ وسیع و عریض سمندر کی حدیں بیلجئیم کے پانیوں سے جا ملتی ہیں۔ راشد حسین لاہور کے رہنے والے ہیں۔ ان کا شمار بھی سر انور پرویز، چودھری سردر، شیر برادراز کی طرح سیلف میڈ لوگوں میں ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے انتھک محنت، جہد مسلسل، دوراندیشی، اور معاملہ فہمی کے ذریعے دولت کماتی ہے۔ سر انور پرویز تو خیر کافی آگے نکل گیا ہے۔ چودھری سرور کو سیاست لے ڈوبی ہے۔ شیر برادرز خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے ماضی کی طرف لوٹتے نظر آتے ہیں۔ انکے برعکس راشد حسین نے کاروبار کو آگے بڑھایا ہے۔ اسکے علاوہ انکے شفیلڈ اور سکاٹ لینڈ (پرتھ) میں بھی ہوٹل ہیں۔ قبل ازیں سنٹرل لندن میں بھی ان کا ہوٹل تھا۔ دبئی میں ٹیلی کام ہارڈ ویرز بزنس ہے۔ چودھری سرور کی طرح انہوں نے بھی لاہور میں اندرون شہر خیراتی ہسپتال کھول رکھا ہے۔ چودھری صاحب کا شفاخانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہے۔ دونوں ہسپتال صدقہ جاریہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ نیکی چاہے کسی رنگ میں بھی ہونیکی ہی ہوتی ہے اس لئے چودھری سرور صاحب بھی خراج کے مستحق ہیں۔
5۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی سفر خاصا طویل رہا۔ تیس ہزار میل امریکہ کے کئی شہروں میں جانا ہوا لیکن مسکن ڈلی تھی، ٹیکساس کی ریاست کا شمار امریکہ کی بڑی اور امیر ریاستوں میں ہوتا ہے۔ یہ غالباً واحد ریاست ہے جسے امریکی آئین کے تحت مرکز سے الگ ہونے کا اختیار دیا گیا ہے۔ وہاں میرے برادر نسبتی انجینئر صغیر کاروبار کرتے ہیں۔ امریکی صدر جان کینیڈی کو یہیں پر گولی ماری گئی تھی۔ جائے شہادت پر پہنچ کر تاسف اور تاریخ نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ دست قاتل نے ایک ہنستے بستے گھرانے کی خوشیاں پل بھر میں ختم کر دی تھیں۔ پانچ منزلہ عمارت کی تیسری منزل تک پہنچ کر وہ کمرہ دیکھا جس کی کھڑکی سے لی ہاروے آسولڈ نے ٹیلی اسکوپک رائفل کے ذریعے کینڈی کے سر کو نشانہ بنایا تھا۔ کیمرے کی آنکھ نے وہ دردناک منظر محفوظ کر لیا۔ جان کینڈی کا تڑپ کا اپنی بیوی جیکی کی گود میں گرنا۔ ادھر کینڈی کے جسم سے خون کا فوارہ پھوٹ رہا تھا۔ ادھر رواں دریائے خوں جیکی کے دیدہ تر سے لوگ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ ساری امریکی فوم خزن ملال کی تصویر بن گئی۔
مرنا تو سب کو ایک دن ہے لیکن اس قسم کی ناگہانی موت شبستان وجود کو ہلاک رکھ دیتی ہے۔ جائے شہادت پر یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ جس پر دن رات ایک (Flame Flicker) کرتا رہتا ہے۔
6۔ آج کل وہاں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ہلری کلنٹن بمقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ، یہ وہی حضرت ہیں جو امریکہ میں جوئے خانے چلاتے ہیں۔ ارب پتی ہیں، انہوںنے اعلان کیا ہے کہ صدر بنتے ہی تمام مسلمانوں کا داخلہ امریکہ میں بند کر دینگے۔ ان پر روزگار کے مواقع مسدور ہو جائینگے۔ میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار تعمیر کرینگے۔ اقلیتوں پر کڑی نظر رکھیں گے۔ انکی لن ترانیوں کی لنکا ایک پاکستانی نژاد خضر خان نے ڈھا دی ہے خضر خان کا بیٹا امریکی فوج میں تھا اور عراق میں لڑتے ہوئے مارا گیا اسے امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ملا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن میں جب خان نے تقریر کی تو سارا امریکہ لرزا اٹھا۔ مبصرین کا کہنا ہے ہلری پورے سال میں وہ نہیں کر پائی جو خضر خان نے ایک تقریر میں حاصل کر لیا، ہلری کے چیف آف سٹاف John Podesta سے ملتان کے رہنے والے بزنس مین حفیظ خان کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ وہاں پر ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں پیڈسٹا کے علاوہ امریکی کانگرس کی رکن Eddie Bernice Johnson نے بھی شرکت کی۔ پیڈسٹا کی تقریر خاصی متاثر کن تھی۔ سب پاکستانیوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایک مخبوط الحواس شخص کو امریکہ کا صدر نہیں بننے دینا۔