عیدالاضحی کے دن جانور کے گلے پر رسماً اور عادتاًچھری چلائی جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوہ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کیلئے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے۔ آبائی وطن عراق میں تھے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا لیکن آگ اللہ کے حکم سے گل و گلزار ہوگئی۔پھرگھر اور ماں باپ چھوڑ کر مصر پہنچے تو وہاں بھی قربانیوں کی بے مثال داستانیں رقم کیں ۔ مصر سے فلسطین پہنچے تو لبوں پریہ دعا تھی” اے میرے رب! مجھے نیک بیٹا دے دے۔‘ ‘اللہ تعالیٰ نے دعا کو شرف ِقبولیت بخشا ۔جب بیٹا ملاتو اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک 86 برس تھی۔ اللہ کے خلیل مسلسل قربانیوںاور آزمائشوں سے گزرتے گزرتے بوڑھے ہو چکے تھے۔ بڑھاپے کی عمر میں رب جلیِل اپنے خلیل کو حکم کرتے ہیں کہ اپنی ہمدر د اہلیہ اورمعصوم لخت جگر کو خود سے جدا کر کے بے آب و گیاہ وادی مکہ جہاں اس وقت عام ضروریات زندگی اور پانی کا نام ونشان تک نہ تھا ۔ وہاں چھوڑ دو۔ وفا واطاعت کے پیکر خلیل اللہ علیہ السلام بلاتامل اپنے بیٹے اور اہلیہ کو وہاں جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ سیدناخلیل علیہ السلام کی قربانیوں کا سفر ابھی جاری تھا۔ انکے لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام ابھی چلنے پھرنے کے قابل ہوئے ہی تھے کہ ایک دن ابراہیم علیہ السلام رب کا ایک اور حکم لےکر آئے اور کہا ”اے فرزند! اللہ نے تمہاری قربانی مانگی ہے اور حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر دوں بتاﺅ تمہاری کیا رضاہے؟ “ فرمانبردار بیٹے نے جواب دیا ” اباجان! اللہ کے حکم کو پورا کیجئے مجھے اللہ کی راہ میں قربان کیجئے آپ مجھے صبر کرنےوالوں میں سے پائیں گے۔“ دونوں باپ بیٹا قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔ باپ نے بیٹے کو پہلو کے بل لٹا لیا اور چھری چلانے کیلئے گلے پر رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو آواز دے کر کہا بے شک تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کو محفوظ رکھا۔ انکی جگہ جانور کی قربانی کروا دی اور اس قربانی کو اپنے خلیل کی سنت بنا کر مسلمانوں کیلئے جاری کر دیا تاکہ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار وقربانی کا ابراہیمی معیار قیامت تک کے مسلمانوں کیلئے قائم ہو جائے اور مسلمانوں سے ہمیشہ اس معیار کی قربانی لی جائے۔ ابراہیم علیہ السلام ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کا حکم لیکر آئے اور اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر بیت اللہ تعمیر کرنے لگے۔ جب بیت اللہ مکمل ہو گیا تو دونوں قبولیت عمل کیلئے اللہ سے دعائیں کرنے لگے۔ اخلاص سے بھرے عمل کو اللہ نے قبول کیا اور اپنے خلیل کو حکم دیا کہ حج بیت اللہ کا اعلان کریں۔ دعاﺅں اور قربانیوں کے نتیجہ میں پورے خطے کو اللہ نے رحمتوں اور برکتوں سے بھر دیا۔ بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ بھی بنایا اور اتحادواتفاق کا مرکز بھی ٹھہرایا۔ آج جب دو چادروں کے احرام میں لپٹے لاکھوں مسلمان لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے حج کے میدانوں کی طرف بڑھتے ہیں تو قدم قدم پر ابراہیم علیہ السلام کے قائم کردہ نشانات پر مناسک حج ادا کرتے ،کروڑوں مسلمان عیدالاضحی کے موقع پر قربانیاں پیش کرتے اور سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ قربانی اور حج کے عمل سے بہت خوش ہوتے ہیں او ر اس عمل سے ہر سال امت مسلمہ کےلئے ایک عملی سبق اور درس کا اہتمام کرتے ہیں....
قربانی کا ایک معیار وہ ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے سب کچھ اللہ کی راہ میں پیش کر کے قائم کیا تھا،جس کا ذکر ہم پیچھے تفصیل سے کر چکے ہیںاورقربانی کا ایک معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان وحی ترجمان سے یوں بیان فرمایا تھایہ کہ قربانی کا جانور صحت مند ہو بیمار نہ ہو۔ آنکھ خراب اور بینائی سے محروم نہ ہو۔ جانور کمزور اور لاغر نہ ہو ۔اس کا کان کٹاپھٹا اور سینگ ٹوٹا ہوا نہ ہو۔یاد رکھیے! حدیث رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں قربانی کے جانور کا ان تمام عیبوںاور نقائص سے پاک ہونا ضروری ہے جو جانور ان عیبوں سے پاک ہو گا صرف اسی کے گلے پر چھری پھیری جا سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قربانی کے جانور کے گلے پر چھری پھیرنے والے مسلمان کےلئے بھی کوئی معیار ہے یا نہیں؟
جانور کے گلے پر چھری پھیرنے سے پہلے مسلمان کو یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ اس کا اپنا ا یمان کمزور، ضعیف، ناقص اور لنگڑا تو نہیں؟اسکے کان، آنکھیں، ہاتھ، پاﺅں اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے داغ دار تو نہیں؟ اس کا جسم،دل ودماغ گناہ کے عیبوں سے آلودہ تونہیں؟ جانور کے گلے پر چھری پھیرنے والے نے پہلے اپنی نفسانی و شیطانی خواہشات کے گلے پر چھری پھیری یا نہیں؟اور کیا جانور کی قربانی کرنیوالے نے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی طرح خود کو اللہ کی را ہ میں قربانی کیلئے پیش کیا یا نہیں؟
اگر ان تمام سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو پھر اے مردِمسلمان! تو جانور کے لگے پر چھری پھیرنے کا حق رکھتا ہے۔ پھر تیری قربانی اللہ کے ہاںقبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ یاد رکھ! کامیابی کیلئے قربانی ضروری ہے لیکن جانور کی قربانی سے پہلے اپنی خواہشات کی قربانی ضروری ہے اور قربانی کے بغیر چارہ نہیں اس لئے کہ جو قوم قربانی نہیں کرتی‘ جانور کی‘ مال ودولت کی‘وقت کی‘ اللہ کے دین کی خاطر بیوی، بچوں، والدین اور گھر بار کو چھوڑنے کی‘ جو قوم اعلائے کلمة اللہ، جہاد فی سبیل اللہ اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے جانوں کے نذرانوں کی قربانی نہیں کرتی ایک وقت آتا ہے جب وہ قوم خود دشمنوں کے ہاتھوں‘ ذبح ہوجاتی اور صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے ۔اے اہل پاکستان!بلاشبہ عید الاضحی کے یہ ایام بے پایاںمسرت وشادمانی کے دن ہیں آج سب لوگ نئے و قیمتی کپڑوں میں ملبوس خوشی خوشی گھروں سے اپنے بچوں کے ہاتھ تھامے نماز عید کی ادائیگی کےلئے نکلیں گے،پھر جانور ذبح کرینگے اور خوش ذائقہ ولذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوکر عید کی خوشیاں دوبالا کرینگے۔ پس اے اہل اسلام!خوشی کے ان لمحات وایام میں مقبوضہ جموں کشمیر کے اپنے ان بہن بھائیوں کو مت بھولوجو مسلسل دوماہ سے فاقہ کشی،کرفیو اور بھارتی فوج کے بے پناہ مظالم کاشکارہیں۔ کشمیرکے ان معصوم و بےگناہ بچوں کو مت بھولو جو بغیر کسی جرم کے خاک ِ پیوند کردیئے گئے، جن کی بینائی چھن گئی ،جو معذور واپاہج ہوگئے، یتیم ہوگئے ،جن کے گلاب جیسے چہرے پیلٹ گن کے چھروں سے بگاڑ دیئے گئے اور جن کے والدین محض پاکستان اوراسلام کے ساتھ محبت کی پاداش میں ذبح کئے جارہے ہیں۔ آج ان بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھنے والا،انہیں نئے کپڑے پہنانے اوران کے ہاتھ پکڑ کر عید گاہ کی طرف لے جانے والا کوئی نہیں رہا، یہ بچے نئے نانِ جویں کو ترس رہے اور سینوں پر گولیاں کھاکر بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں۔لہذا ضروری ہے کہ آج ہم اپنی دعاﺅں میں کشمیر سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو یاد رکھیںاور قربانی کے جانوروں کے گلے پر چھری پھیرنے سے پہلے اپنے مظلوم بہن ،بھائیوں اور بچوں کیلئے ہر طرح کی جانی و مالی قربانی دینے کا عہد کریں۔
مقصد ِقربانی اور اسو ہ حضرت ابراہیم علیہ السلام
Sep 13, 2016