عجیب بات ہے کہ قربانی ایک قومی اور ثقافتی سرگرمی بن گئی ہے۔ قربانی کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوئی صرف اس کا عنوان تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسا تہوار کہیں نہیں منایا جاتا میں ایک غیرمذہبی آدمی ہوں مگر میں مذہبی آدمی بھی ہوں۔ مسیحی بھی یسوع مسیح کی امت ہیں جو اپنے دل اور جذبات کی طاقت سے کسی سے تسخیر نہ ہو سکا اور پھانسی چڑھ گیا۔ مصلوب ہو گیا۔ صلیب انسانی زندگی کا ایک استعارہ ایک علامت بن گئی ہے۔ یہ جذبہ کسی نہ کسی شکل میں انسان کے اندر سلامت رہا ہے۔
نجانے کیا ہے کہ میں تختہ دار پر لٹکنے والے شخص کو بہت بڑا مقام دیتا ہوں۔ موت تو کسی طرح بھی آ سکتی ہے جس کے لیے موت زندگی سے آگے کی چیز بن گئی۔ وہ زندہ تر ہو گیا۔ زندگی کے بعد زندگی کو سمجھنے کے لیے شاید اس طرح مرنا ضروری ہے کہ آدمی بے بسی کی موت نہ مرے۔ ایسا ہو کہ موت بھی اس کے اپنے بس میں ہو۔ پھانسی چڑھنے والے زیادہ بڑے لوگ ہوتے ہیں۔
میرے گائوں موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں ایک مختلف بزرگ آدمی تھا۔ وہ ہر دعا میں یہ الفاظ ضرور دہراتا تھا کہ اے اللہ مجھے سوہنی موت دینا۔ وہ چلتے پھرتے چلا گیا۔ پتہ نہیں کیا ہوا۔ اس کی کوئی دشمنی نہ تھی۔ وہ دعا دینے والا اور دوسروں کے کام آنے والا آدمی تھا۔ اسے کسی نے قتل کر دیا۔ اس کی گردن مار دی گئی۔ چھری سے باقاعدہ اسے ذبح کیا گیا تھا۔ اس نے اپنے قاتلوں کو پہچانا بھی نہ تھا۔ اس نے یہ نہ پوچھا کہ تم مجھے کیوں قتل کر رہے ہوں۔ میرا قصور کیا ہے۔ تین چار لوگوں نے اسے پکڑ کر زمین پر لٹانا چاہا۔ اس نے کہا تم یہ تکلیف نہ کرو میں خود یہ کام کروں گا۔ وہ خاموش لیٹ گیا اور خود اپنی گردن سے کپڑا الگ کیا۔ پھر اس کے گلے پر چھری پھیر دی گئی۔ وہ تھوڑا سا تڑپا کہ اب نہ تڑپنا اس کے بس میں نہ تھا۔
یہ عجیب واقعہ ہماری بستی میں ہوا۔ لوگ دم بخود ہو گئے اور بہت عجیب بات یہ ہے کہ یہ دن عیدالضحیٰ کا تھا۔ بقر عید کی نماز کے بعد یہ واردات ہوئی تھی۔ یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ یہ کیا قربانی تھی؟ ذبح کر کے قتل کرنے والے لوگوں نے قربانی کے دن کا انتخاب کیوں کیا تھا؟
ہم جو اس دن بکروں اور مویشیوں کی قربانی کرتے ہیں سوچتے تو ہوں گے کہ یہ کیا روایت ہے۔ یہ کیا حکایت ہے۔ اتنا بڑا جنازہ ہماری بستی میں کسی کا نہ ہوا ہو گا۔ میں نے یہاں کسی کو بولتے نہ سنا۔ لوگ خاموش تھے اور خاموشیاں ماتم کر رہی تھیں۔
مرنے والے کی دعا قبول ہوئی تو کیا سوہنی موت ایسے ہی ہوتی ہے۔ طبعی موت تو مجبوری کی طرح ہوتی ہے۔ جس مجبوری کا کوئی نام بھی نہیں ہے۔ سوہنی موت کا تعلق بندے کے اختیار سے بھی ہے۔ یہاں اختیار اور بے اختیار میں فرق مٹ گیا تھا۔
یہ واقعہ تو میرے دل پر لکھا ہوا ہے۔ میں نے آج کاغذ پر اپنے کالم میں بھی لکھ دیا ہے۔ آج جس طرح ذبح ہونے والے بکروں کی کھالوں کی بات ہوتی ہے تو اس بات میں بھی کوئی راز ہے۔ بکرے کی کھال خود بکرے سے زیادہ اہم اور بیش بہا ہو جاتی ہے۔ عام طور پر لوگ اپنے بکرے کی کھال کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ یہ کھال کسی کو دے دو۔ عام طور پر بکرے کا گوشت بنانے والے لوگ ہی کھال لے جاتے ہیں۔ کچھ تو کھال لینے کے بعد اپنی مزدوری بھی نہیں لیتے۔ قصائی کو کھال دے کر بھی لوگ غافل ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ یہ بھی قربانی کرنے کی طرح ایک فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ بھی ہر کسی کو سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں دو نمبر کام بہت ہو رہا ہے مگر اس دونمبری کو ہم خاطر میں نہیں لاتے۔ تھیلسیمیا کے مریض بچوں کے لیے ایک تنظیم ہے ام نصرت فائونڈیشن جو جینوئن طریقے سے کھالوں کی مستحق ہے۔ اس فائونڈیشن میں عمیر اور مائرہ مریض بچوں کو صحت مند اور تازہ خون فراہم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں یہ کام کتنی محنت کا ہے مگر جاری و ساری ہے۔ تھیلسمیا کی بیماری میں مبتلا بچوں کے لئے امید حیات بن کر پچھلے دو اڑھائی سال دن رات ایک کرنے والے عمیر اور سائرہ ہماری خاص توجہ اور مہربانی کے مستحق ہیں۔
میں ایک درویش آدمی ہوں۔ مجھے یہ دونوں میاں بیوی کھینچ کر اپنے دفتر میں لے گئے۔ میں نے وہاں بچوں کو دیکھا جو بے حس و حرکت پڑے تھے۔ خون کا ایک قطرہ ان کے لئے زندگی کی طرح تھا۔ سینئر صحافی الیکٹرانک میڈیا کا ایک روشن اور دوستدار نام خاور نعیم ہاشمی کا ہے۔ میں نے اُسے بھی ام نصرت فائونڈیشن کے دفتر میں دیکھا۔ وہ بچوں کے ساتھ ہے۔بہت بڑی صلاحیت والا مگر دنیاداری سے بہت دور شخص بھی کئی گھنٹوں تک کئی مریض بچے اتنے خوش تھے کہ وہ بالکل صحت مند لگ رہے تھے۔
وہاں صحافت کے لیجنڈ اور شعروادب کی دنیا میں بزرگ شخصیت منو بھائی بھی موجود تھے۔ بڑے آرٹسٹ باپ کے آرٹسٹ بیٹے خاور نعیم ہاشمی اور منو بھائی نے بہت اچھی تقریر کی۔ میں نے دفتر میں ایک بچے سے ہاتھ ملایا اور اس کا ننھا منھا ہاتھ چوم لیا۔ اس کے خشک ہونٹوں پر ایک دلگداز مسکراہٹ کانپتی رہ گئی ۔
پڑھنے والے دوستوں سے گذارش ہے کہ ان کے دفتر میں جائیں۔ مجبور اور لاچار بچوں کو دیکھیں۔ اس موقعے پر قربانی کی کہانی کا حصہ بنیں۔ قربانی کی کھالیں اُن تک پہنچائیں۔
ان دنوں کھال کھینچے والے بھی بہت سرگرم ہوں گے۔ اس کے لئے احتیاط ضروری ہے۔ برادرم ہارون الرشید کے کالم کا عنوان بھی ’’کھالیں‘ ‘ ہے۔ انہوں نے موضوع کو بھی علمی اور تخلیقی انداز میں تحریر کیا ہے۔ انہوں نے کراچی کے لئے ایم کیو ایم کی سرگرمیاں بھی بیان کی ہیں۔ وہ لوگ چندہ جمع کرکے اور کھالیں جمع کرنے میں ایک ہی طریقہ اختیار کرتے تھے۔ الطاف حسین کی ہدایت اس سلسلے میں بھی بہت کارآمد ہوتی تھی۔ مگر اب معاملات خاصے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں خوف کی فضا تحلیل ہورہی ہے۔ ہارون الرشید کے بقول پچھلے سال ایم کیو ایم اپنے ہدف کا صرف 20 فیصد حاصل کرسکی تھی۔ اس سال دس فیصد کی بھی امید نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی کررہے ہیں کہ کراچی کا امن عارضی ہے تو ایم کیو ایم شہر میں امن کے خلاف ہے؟ کھالیں بھی قربانی کا حصہ ہیں۔ غور کریں قربانی کیا ہے؟