دمشق (بی بی سی+ این این آئی) شام میں دو روز سے جاری فضائی حملوں کے بعد پیر سے غروبِ آفتاب کے بعد جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد ہو گیا۔ امریکہ اور روس کے درمیان طے کردہ ایک معاہدے کے تحت یہ دس روزہ جنگ بندی عمل میں لائی جائے گی اور اس کے بعد دونوں ممالک کی فورسز ایک مشترکہ آپریشن میں عسکریت پسند جہادیوں کا مقابلہ کریں گی۔ تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مختلف باغی گروہ اس کی پاسداری کریں گے یا نہیں۔ شام میں باغی گروہ فری سیریئن آرمی نے امریکی حکومت کو ایک خط میں کہا ہے کہ وہ اس جنگ بندی میں مثبت انداز میں معاونت کریں گے تاہم ان کا خیال ہے کہ اس سے شامی حکومت کو فائدہ پہنچے گا۔ ادھر ایک اور طاقتور گروہ احرار الشام نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔گروہ کا کہنا ہے کہ وہ 6 برس سے جاری ان مسائل کے ’کچے پکے حل‘ تسلیم نہیں کر سکتے۔ ترکی اور یورپی یونین نے جنگ بندی کے اس منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس حوالے سے مزید اقدامات کی بھی ضرورت پر زور دیا تھا۔تاہم ترک صدر رجب طیب اردگان نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ ہمسایہ ملک شام میں خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کو شکست دینا ترکی کی ذمہ داری ہے۔شام میں شورش کا آغاز پانچ سال پہلے صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت سے ہوا اور اب تک اس میں کم سے کم تین لاکھ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔روس نے کہا جنگ بندی کا عملدرآمد تمام علاقوں پر ہو گا۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے جاری رہیں گے۔
شام میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد شروع
Sep 13, 2016