اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بنچ کی سفارش اور شریف فیملی کی اپیل پر لارجر بنچ تشکیل دیدیا۔ لارجر بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کرینگے جبکہ دیگر ججز میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔ قبل ازیں پانامہ لیکس فیصلے کے خلاف وزیراعظم اور ان کے بچوں کی نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی۔ مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرا اور نوازشریف کے وکیل کا ایک ہی موقف ہے اس لیے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو بھی اسی درخواست کے ساتھ سنا جائے۔ انہوں نے کہا 5 رکنی بنچ کے دوبارہ اکٹھے ہونے پر بھی سوال ہے۔ 28 جولائی کے فیصلے پر 5 ججز کے دستخط ہیں۔ اگر پانچ ججز کا فیصلہ تھا تو لارجر بنچ ہی سماعت کرے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ تین رکنی بنچ کے فیصلے پر دلائل دے کر ہمارا ذہن تبدیل کریں۔ اگر نظر ثانی درخواست سن کر ہم نے ذہن تبدیل کیا تو پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ بھی تبدیل ہو جائے گا۔ اصل فیصلہ تین رکنی بنچ کا ہی تھا جو کیس ہم نے سنا ہے اس میں مزید دو ججز کا بیٹھنا فائدہ مند نہیں ہوگا۔ عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد نظر ثانی درخواستوں کو پانچ رکنی بنچ کے سامنے لگانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا۔ لارجر بنچ اپیلوں کی سماعت آج 5 رکنی بنچ کریگا۔ سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ 28 جولائی کے حکم نامے پر 5 ججز کے دستخط ہیں اس لئے تکنیکی اعتراضات سے بچنے کے لئے تین رکنی بنچ کے سامنے نظرثانی درخواست دائر کی۔ دوسری جانب احتساب عدالت کے رجسٹرار نے شریف فیملی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف دیگر دو ریفرنسز پر بھی اعتراض لگا کر واپس نیب کو بھجوا دیئے۔ دو ریفرنسز پہلے ہی نیب کو واپس بھجوائے جا چکے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ تین رکنی بنچ کس طرح 5 رکنی بنچ کے فیصلے کو تبدیل کرسکتا ہے، نگران جج کے ہوتے ہوئے نیب کس طرح شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے کرسکتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ اکیڈمک بحث کررہے ہیں آپ نے پانچ رکنی بنچ کے منیارٹی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اونٹ کو ٹینٹ میں نہ رہنے دیں، ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ وہ تو خیمہ سے نکل چکا ہے۔ دریں اثناء نیب نے فلیگ شپ ریفرنس دوبارہ احتساب عدالت میں جمع کرا دیا۔ احتساب عدالت نے 14ستمبر تک دوبارہ ریفرنسز جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ بعض دستاویزات کا انڈیکس میں حوالہ موجود ہے مگر ریکارڈ میں شامل نہیں۔ نیب ترجمان نوازش علی سے فون پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فون نہ اٹھایا۔مو بائل پر میسیج بھیجنے پر انہوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے بتایا کہ ریفرنسز واپس نیب کو بھیجنے کی خبر درست نہیں جبکہ فلیگ شپ ریفرنس احتساب عدالت میں جمع کرادیا گیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین، ڈائریکٹر آپریشنز اور پراسیکیوٹر جنرل نیب نے نگران جج جسٹس اعجازالاحسن سے ملاقات کی ہے جس میں انہیں ریفرنسز پر احتساب عدالت کے اعتراضات سے آگاہ کیا گیا ہے۔