پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کیخلاف امریکی عزائم کا اعادہ اور ہماری حکمت عملی
امریکہ نے پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مکمل تعاون کرے کیونکہ یہ واشنگٹن کیلئے غیرمعمولی اہمیت کا حامل ایشو ہے۔ اس حوالے سے ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے بتایا کہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے حالیہ دورہ¿ پاکستان کے دوران نئی پاکستانی حکومت پر دباﺅ ڈالا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھرپور تعاون کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ پاکستان اس جنگ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھے گا۔ انکے بقول پومپیو نے پاکستانی حکام پر یہ واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف اقدامات امریکہ کیلئے غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ایک جوہری ملک ہے چنانچہ اس امر کا خطرہ ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردوں کے ہاتھوں گر سکتی ہے اور ایسی صورت میں جوہری ہتھیاروں کا کنٹرول دہشت گردوں کے پاس آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
یہ امر واقع ہے کہ امریکہ ہمارا چین جیسا قابل بھروسہ اور مخلص دوست ہرگز نہیں‘ اسے صرف اپنے مفادات سے سروکار ہوتا ہے جس کیلئے وہ ہم سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ ہمیں آنکھیں دکھانے اور طوطاچشمی کا مظاہرہ کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ جس طرح ہمارے ازلی دشمن بھارت کو شروع دن سے ہی ہمارا آزاد اور خودمختار مملکت بننا گوارا نہیں ہوا اسی طرح امریکہ کو ہمارا ایٹمی قوت سے ہمکنار ہونا بھی شروع دن سے قبول نہیں ہوا۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ امریکہ کو 1974ءمیں بھارت کو اس وقت بھی جب وہ سوویت یونین کے ساتھ شریک ہو کر سامراج مردہ باد کے نعرے لگواتا تھا‘ اسکے ایٹمی دھماکے کرنے پر کسی قسم کی وارننگ جاری کرنے یا اقتصادی عالمی پابندیاں لگوانے کیلئے کسی قسم کی پیش رفت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی جبکہ اس نے مئی 1998ءکے آغاز میں بھارت کی جانب سے دوبارہ ایٹمی دھماکے کرنے پر بھی چپ سادھے رکھی مگر ان دھماکوں کے جواب میں جیسے ہی امریکہ کو پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کا عندیہ ملا تو اس نے دھماکے نہ کرنے کیلئے پاکستان پر اپنے علاوہ دوسرے ممالک کا بھی دباﺅ ڈلوانا شروع کردیا۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو خود امریکی صدر کلنٹن نے فون کرکے ترغیبات دیں کہ دھماکے نہ کرنے کے عوض انکے ذاتی اکاﺅنٹ میں 6‘ ارب روپے جمع کرادیئے جائینگے تاہم جب ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کے تحت میاں نوازشریف نے یہ امریکی دباﺅ اور ترغیبات قبول نہ کیں اور 28 مئی 1998ءکو چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی بٹن دبا کر پانچ ایٹمی دھماکوں کی شکل میں بھارت کو مسکت جواب دیا تو امریکہ ہم پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے پر تل گیا۔ پاکستان پر صرف اقتصادی پابندیاں ہی نہ لگوائی گئیں بلکہ اسکی ایٹمی تنصبات کو ناکارہ بنانے کی سازشوں کے بھی جال بننا شروع کردیئے۔ شومئی قسمت کہ اسی دوران جرنیلی آمر مشرف نے جمہوریت کی بساط لپٹوا کر ملک میں ماورائے آئین اقدام کے تحت جرنیلی آمریت مسلط کردی جنہیں زمین پر قدم جمانے کیلئے اپنی حکومت کو امریکی تائید کی ضرورت پڑی۔ اسی دوران امریکہ میں ری پبلکن بش جونیئر اقتدار میں آگئے جنہیں اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں نائن الیون کے سانحہ سے دوچار ہونا پڑا اور انہوں نے افغانستان کی سرزمین پر نیٹو افواج کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر مسلم دنیا کیخلاف ”کروسیڈ“ کی ٹھانی تو ہمارے جرنیلی آمر مشرف انہیں محض ایک ٹیلی فونک دھمکی پر پاکستان کی جانب سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کیلئے دستیاب ہوگئے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے اپنی ہی پالتو تنظیموں القاعدہ اور طالبان کی مبینہ دہشت گردی کی کارروائیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا شروع کردیااور اس معاندانہ رویہ کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے جرنیلی آمرمشرف کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بھی بنالیا۔
یہی وہ صورتحال تھی جس میں امریکہ کو پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کا بھرپور موقع ملا اور اس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معاملہ میں بھی اپنی نیت اور عزائم کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ اس تناظر میں پاکستان پر مبینہ دہشت گرد اور انتہاءپسند تنظیموں کیخلاف کوئی ایکشن نہ لینے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے الزامات عائد کرکے یہ پراپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات غیرمحفوظ ہیں جو کسی وقت بھی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ کر علاقائی اور عالمی تباہی کی نوبت لاسکتی ہیں۔ اس پراپیگنڈے کی بنیاد پر امریکہ نے نہ صرف پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر کنٹرول کی سازشوں کا جال پھیلانا شروع کیا بلکہ ہمارے دشمن بھارت کی سرپرستی بھی شروع کردی جو سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد اپنے مفادات کے تحت امریکی پلڑے کی جانب جھکنے لگا تھا۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کیخلاف زہریلے پراپیگنڈا کیلئے جہاں بھارت امریکی معاون بنا وہیں ہمارے جرنیلی آمر مشرف بھی واشنگٹن انتظامیہ کو آسانی کے ساتھ ایک مہرے کے طور پر دستیاب ہوگئے جنہوں نے امریکی ایماءپر پاکستان کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر قدیر خان کو راندہ¿ درگاہ بنایا اور حقیر ڈالروں کے عوض پاکستانی باشندوں کو لاپتہ کراکے امریکہ کے حوالے کرنا شروع کردیا۔ امریکہ نے اسی فضا میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ایک سازشی منصوبہ تیار کرکے تباہ کرانے کی کوشش کی جو ہماری مشاق پاک فضائیہ نے ناکام بنادی۔ پھر امریکہ نے اپنے جاسوس فوجیوں کے ذریعے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لینے اور ایٹمی ٹیکنالوجی چرا کر لے جانے کی بھی کوشش کی تاہم واشنگٹن انتظامیہ کو اپنی ان تمام سازشوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ رہی۔ امریکہ اپنی ان ناکامیوں پر ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کیخلاف وقتاً فوقتاً زہر اگل کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ اس نے پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت سے اب تک رجوع نہیں کیا اور واشنگٹن انتظامیہ میں کلنٹن کے بعد بش‘ اوبامہ اور اب ٹرمپ کے آجانے سے بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیخلاف امریکی سازشوں میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا بلکہ اب یہ سازشیں مزید گہری ہوگئی ہیں اور اس وقت امریکہ عملاً پاکستان کے ساتھ دشمن ملک جیسا سلوک کررہا ہے۔ امریکی ری پبلکن ٹرمپ پاکستان کے ساتھ مخاصمت میں بھارتی انتہاءپسند نریندر مودی سے بھی چار قدم آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں جبکہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا ٹرمپ اور مودی کا مشترکہ ایجنڈا بن گیا ہے۔ اس میں یقیناً پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہی سدِراہ ہے جسے سبوتاژ کرنے کیلئے ٹرمپ انتظامیہ نے اسکے دہشت گردوں کے ہتھے چڑھنے کے خدشات کا دوبارہ پراپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کئے جاتے ہیں اور یہ تقاضے پورے نہ کرنے کا الزام عائد کرکے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نہ صرف سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی اسکی گرانٹ روک لی گئی ہے بلکہ اس پر اقتصادی پابندیاں لگوانے کا پراسیس بھی شروع کردیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان چونکہ مذہبی انتہاءپسند تنظیموں کے حوالے سے اپنے نرم گوشے کا اظہار کرتے رہے ہیں اس لئے انکے اقتدار میں آنے کے بعد امریکی حکام کو پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے الزامات عائد کرنے کا موقع مل گیا ہے اور اسی بنیاد پر امریکی قومی سلامتی کے مشیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے خدشات کے اظہار کا دوبارہ موقع ملا ہے جس کے بارے میں انکے بقول امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی حکام کو واضح پیغام دے دیا ہے۔ تاہم عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی کی حکومت اور دفتر خارجہ پاکستان نے ملک کے مفادات کے حوالے سے امریکہ کے روبرو دوٹوک موقف اختیار کرنے کا درست فیصلہ کیا اور امریکی وزیر خارجہ کو بجا طور پر باور کرایا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بہرصورت پاکستان کے مفادات کے تابع ہونگے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی اور تنصیبات ہماری کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد کو واشنگٹن انتظامیہ کا کوئی دباﺅ قبول کرنا چاہیے نہ اسکے ایماءپر اقوام عالم کے کسی دباﺅ میں آنے کی ضرورت ہے۔