وزیراعظم ہاﺅس کے چار ہیلی کاپٹر اور 8بھینسیں بھی نیلام کرنے کا فیصلہ
نئی حکومت کی طرف سے ہر کام میں سادگی ہر سطح پر بچت کا جو خوشگوار موسم چل رہا ہے خدا کرے یہ ہمیشہ قائم رہے اور عوام کو بھی خوشگوار تبدیلی محسوس ہوتی رہے۔ وزیراعظم ،صدر اور گورنروں کی طرح وزرا اعلیٰ اور دیگر وزیر بھی اس سادگی اور بچت پروگرام پر صدق دل سے عمل پیرا ہوں تو عوام میں بھی خودبخود سادگی اور بچت کی عادت پیدا ہو گی اور فضول خرچی میں کمی آئے گی۔ اب وزیراعظم ہاﺅس میں موجود 4عدد ہیلی کاپٹروں کو بھی نیلام کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ۔ اس سے قبل قیمتی گاڑیوں کا پورا بیڑہ نیلام کرنے کا اعلان ہوا تھا گاڑیوں کے خریدار تو بے شمار ملیں گے ۔ اور جو ہیلی کاپٹر ہیں‘ ان کا بھی اچھا گاہک مل سکتا ہے مگر یہ جو 8عدد وزیراعظم ہاﺅس کی بھینسوں کی بھی نیلامی کا حکم صادر ہواہے اس پر اختلاف ہو سکتا ہے ۔ اب ان قیمتی خوراک کھانے والی اعلیٰ نسلی بھینسوں نے اپنی بے قدری پر کسی کے آگے بین تو بجانا نہیں ہاں البتہ اگر حکمران ان کے آگے بین بجاتے تو بہت سے مسائل کا حل خود بخود دماغ میں آسکتا ہے کیونکہ بھینس بھی ہمیشہ غورو فکر میں مگن رہتی ہے۔ ان کا نیا خریدار خدا جانے کیسا ہو وہ ان کی وہ قدرے کرے یا نہ کرے جو وزیراعظم ہاﺅس میں ہوتی تھی ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ انہیں پہلے کی طرح وزیراعظم ہاﺅس میں رکھا جائے ۔ مشکل پڑنے کے وقت انکے آگے بین بجانے کا شغل فائدہ مند رہتا ہے۔ ویسے بھی بھینس ایک پر امن جانور ہے جو دودھ بھی دیتی ہے اور جو روکھی سوکھی ملے کھا کر صوفیوں کی طرح آنکھیں بند کیے ہمہ وقت دھیان گیان میں ڈوبی رہتی ہے، یوں اس کی زندگی سے بھی ہم بہت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔
٭....٭....٭
23ستمبر سے بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل چلانے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہو گی: لاہور ہائی کورٹ
عدالت کا یہ فیصلہ سر آنکھوں پر اس سے اچھی خبر بھلا اور کیا ہوگی کہ موٹرسائیکل چلانے والوں کی جان کسی حادثے کی صورت میں زیادہ محفوظ ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت، انتظامیہ اور عدالتیں اس سے قبل بھی کئی بار ہیلمٹ کے حوالے سے سخت احکامات جاری کرچکی ہیں مگر”زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد “کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔دنیا بھر میں ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکل یا سکوٹر چلانے کی اجازت نہیں ۔ مگر ہمارے ہاں اس پابندی کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ہمارے ہاں اس کی پابندی کی ضرورت سب سے زیادہ ہے ۔کیونکہ ہمارے ہاں نو عمر لڑکے سے لے کر جہاندیدہ بابوں تک سب جس طرح طوفانی انداز میں موٹرسائیکل چلاتے ہیں ۔ اشارے توڑتے ہیں اس کے نتیجے میں آئے روز ملک بھر میں حادثات کی بے شمار خبریں سامنے آتی ہیں ۔ مگر کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لگتا ہے پورا ملک موت کے کنوئیں میں موٹرسائیکل چلانے کی پریکٹس کر رہا ہے یا ون ویلنگ کی ریس لگی ہوئی ہے۔زیادہ تر حادثات میں موٹرسائیکل سوار سر پر چوٹ کی وجہ سے جان کی بازی تک ہار جاتے ہیں ۔ اس لئے ان سپر مین اور ٹارزن جیسے موٹرسائیکل سواروں کو اب قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے ہیلمٹ تو پہننا ہی پڑے گا ورنہ تیار ہو جائیں گرفتاری اور جرمانے کے لئے ۔
٭....٭....٭
عمران خان پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم کریں گے : کپل دیو
خدا کرے کہ ایسا ہو ۔ مگر جب تک بھارت میں انتہا پسندوں کی حکومت رہے گی۔ پاکستان سے دشمنی کرنے والے حکمران رہیں گے۔ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ماضی کی بات چھوڑ دیں۔ حال پر نظر دوڑائیں ۔ ہمیں تو آپ کی فکر لگ گئی ہے کہ دیکھتے ہیں کہ بھارتی انتہا پسند سیاستدان اور میڈیا اب آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ۔ نوجوت سدھو کی جو درگت بنی وہ ہمارے سامنے ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور پاکستان آرمی چیف سے گلے ملنا ان کے لئے وبال جان بن گیاانہیں ہر طرف سے غدا رکہا جا رہا ہے ۔اب کہیں یہ انتہا پسند کپل دیو کے خلاف ایکا نہ کر لیں ۔ شاید انہی انتہاپسندوں کی شرپسندی کی وجہ سے وزیر اعظم عمران کے ذاتی دوست بھارتی کرکٹر جنہیں انہوں نے تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی،پاکستان نہیں آئے۔ اب کپل دیو اس بیان کے بعد اپنی فکر کریں ۔ کہیں کل تک ان کی پوجا کرنے والے انہیں ہیرو قرار دینے والے اب انہیں وطن دشمن کہتے ہوئے ہیرو سے زیرو نہ بنادیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ذاتی شہرت کے باعث اور بطور کرکٹر ان سے محبت کرنے والے بھارتی عوام ان کی امن کی آوازپر کان دھرنے لگے ہیں ۔ یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی۔ بالاخر بھارت سرکار کو آج نہیں تو کل کو عوام کی خواہش پر امن کی راہ اپنانا ہی پڑے گی۔
٭....٭....٭
جرمنی کی خوبصورت ترین خاتون مردے دفنانے پر مامور
پہلے تو ہم مردے دفنانے والی اس گورکن خاتون کو خوبصورت گورکن کا اعزاز حاصل کرنے پر مبارکباد دیتے ہیں ۔ اگر ایسا کام برصغیر میں بھی رائج ہوتا تو ہمارے کئی شعرا، ادبا اور دل پھینک قسم کے عشاق زندگی اور محبوب کے رنج و غم سے نجات کے لئے اس خاتون کے ہاتھوں زندہ درگور ہونا پسند کرتے اور اس خاتون سمیت ان جیسی دیگر گورکن خواتین کے ہاتھوں تدفین کےلئے وقت لینا پڑتا کیونکہ ہمارے ہاں تو کسی پری چہرہ کے ہاتھوں دفن ہونا بھی ایک اعزاز بن سکتا ہے۔ لوگ تو ان جیسی حسین گورکن کے ہاتھوں دفنانے کی تمنا کرتے نظر آئینگے۔
مرنے کی دعائیں کیوںمانگوں
جینے کی تمنا کون کرے
کا خواب سچ ثابت ہوتا ۔ اس طرح خود بخود موت کی طرف رغبت بھی پیدا ہوگی جو ہمارے ہاں کے گورکنوں کو دیکھ کر مزید خوف میں بدلتی ہے ۔
٭....٭....٭....٭