پورے ملک میں ایک عجب نوع کی تہذیبی و ثقافتی لہر دوڑ رہی ہے‘ عجب اک سّرِ مبہم ہے کہ گورنر ہا¶سز کے منہ کھول دئیے گئے ہیں‘ چیدہ چیدہ شہریوں کو وہاں لے جا کر سیر کرائی جا رہی ہے۔ لوگوں کو باورکرایا جا رہا ہے کہ یہ کوئی نعمت غیر متبرکہ ہے جو انہیں ودیعت کی گئی ہے۔ لیکن عوام کا خیال تھا پی ٹی آئی کو اقتدار ملتے ہی ٹھوس‘ مثبت اور دوررس کام شروع ہو جائینگے‘ وہ ایسے اقدامات کی شروعات چاہتے تھے‘ جو انکی کایا پلٹ کر رکھ دیں‘ رواں نظام کی خامیاں دور کریں اور اسکی بساط ازسرنو استوار کرتے ہوئے نظر آئیں‘ لیکن یہاں معاملات انتخابی نعروں سے آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہے‘ انتخابی دعو¶ں اور وعدوں کو یکسو کرنے کی کوئی حکمت عملی تاحال پوری طرح سامنے نہیں آ سکی‘ بس کچے فیصلے اور ناپختہ ذہن کے ساتھ ادھورے اقدامات پر زور ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا اندرون خانہ اس میں بدنیتی کارفرما ہے لیکن فی الحقیقت ناتجربہ کاری کا عنصر صاف جھلک رہا ہے۔ اسلام آباد سے بنی گالا ہیلی کاپٹر کا خرچ 55 روپے بتا دیا‘ گیس کی قیمتیں ہوشربا حد تک بڑھا دیں‘ پھر فیصلہ م¶خر کر دیا۔ ارباب حل و عقد اور وزیروں‘ مشیروں کی زبانیں پھسل رہی ہیں‘ زبان میں تفہیم کی لکنت جا بجا ہے۔ برطانوی اخبار نے سی پیک پر جو غلط بیانی کی اور گمراہی پھیلائی‘ یہودی اور بھارتی لابی کی کارستانی ہے‘ لیکن وزیر موصوف کو اس ضمن میں چینی ذمہ داروں کے ساتھ ملاقات و مذاکرات کے ضمن میں وضاحتی بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ بجائے اپنی صفائیاں پیش کرنے کے یہ کیوں نہ کہا کہ یہودی اور بھارتی لابی نے برطانوی اخبار کو آلہ کار بنا کر سی پیک کے خلاف سازش کی ہے۔ سارے معاملے کو بنظر غائر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہیں نہ کہیں تو زبان ضرور پھسلی اور ابہام پیدا ہوا‘ جس کا فائدہ ملک دشمنوں نے سمیٹنا چاہا۔ سی پیک کو وقتی طورپر یا محدود مدت کےلئے زیر التوا رکھنا بھی کوئی حکمت عملی ہے۔ ارباب اقتدار کو تنبیہہ کرنےوالے انہیں کیوں نہیں سمجھاتے کہ کچی اور ناپختہ باتیں خستہ حال فیصلوں کی طرف جاتی ہیں۔ حکمرانوں کیلئے سیانوں کا سو بار تول کر بولنے کا فارمولا وضع ہے‘ وہ کہاں گیا؟ پھر کچی باتوں کا اجمال یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ارباب اقتدار کی باہمی مشاورت یا تو سرے سے ہے ہی نہیں یا پھر انتہائی کمزور ہے‘ جو حتمی طورپر ان کی کارکردگی کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ سی پیک کا مروڑ مغربی دنیا اور بالخصوص امریکہ کے پیٹ میں اٹھا ہوا ہے‘ اسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامک ورلڈ اور تیسری دنیا کے نظریے پیش کئے تو امریکہ سمیت پورا یورپ ان کا دشمن بن گیا تھا۔ سی پیک کی طرح بالخصوص تیسری دنیا کا نظریہ امریکہ کو قبول نہیں تھا۔ اس کا ثبوت کسینجر کے اس خط سے فراہم ہوتا ہے‘ جو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں راولپنڈی صدر کے بنک روڈ چوک پر آ کر لہرایا اور پھر اسے پھاڑ کر پرزے پرزے کر دیا تھا۔ دراصل یورپ اور امریکہ پاکستان کو اپنے گماشتے کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ ایک طاقت کے طور پر دیکھنا پسند نہیں کرتے‘ اس مقصد کیلئے انہیں ہر دور میں امریکی سانچوں میں ڈھلے ڈھلائے ضیاءالحق اور پرویز مشرف میسر آتے رہے۔ یورپ کے طول و عرض میں کانٹوں کی طرح بچھی ہوئی یہودی اور بھارتی لابی پاکستان دشمنی میں سب سے آگے اور امریکہ کی پشت بان بھی ہے۔ ماسوائے شاہ محمود قریشی حکومت کے کسی وزیر‘ مشیر کی اتنی سکت نہیں کہ وہ عالمی سیاست کی ان حساس جہتوں کو سمجھ بوجھ سکے۔ اس لئے موجودہ حکمرانوں کے بعض ناقدین ایسے بھی ہیں جو برملا مشورہ دیتے ہیں کہ ان وزراءاور مشیروں کو فارن سروس کی کسی اکادمی میں ٹریننگ دی جائے‘ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے‘ انہیں تاحال ملک کی مجموعی معاشی و دیگر خرابیوں کا کوئی واضح اور چشم کشا سرا ہی پکڑائی نہیں دے رہا‘ اس ضمن میں انکے جو قریبی مشیر ہیں وہ جہانگیر ترین اور اس قبیل کے چند دیگر لوگ ہیں‘ جو خود کو عالی مرتبت اور عالی دماغ سمجھتے ہیں۔ تفاخر کے اظہار میں خود عمران خان بھی کچھ کم نہیں‘ انکے جسم میں ایک سطح پر ذوالفقار علی بھٹو کی بے چین اور مضطرب روح موجود ہے‘ جو انہیں کسی لحظہ چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ نفسیاتی سطح پر بھی بہت سی باتیں بھٹو اور عمران میں قدر مشترک کے طورپر بھی ہیں‘ مثلاً وہ بھٹو کی طرح فرد واحد کی حکمرانی کا چلن رکھتے ہیں اور اپنے فیصلوں کو دوسروں سے مقدم و معتبر بھی سمجھتے ہیں‘ اسی لئے وفاقی کابینہ یا حکومت کے تمام صائب فیصلوں کے ضمن میں کہا جاتا ہے کہ حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان کرینگے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں کا بارگراں انہوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور اکثر و بیشتر وہی ان صوبوں کا عنان اقتدار چلا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ان ہر دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ڈمی ہیں۔ پنجاب کے معاملات میں انکے مشیر یار غار جہانگیر ترین اور خیبر پختونخوا کی ساری مشاورت وہ گنڈا پور اور اس نوع کے دیگر چند وزراءسے لیتے ہیں‘ تاہم خوش قسمتی سے وفاق اور صوبوں کی حکومتوں میں ان کےخلاف کوئی مزاحمتی رویہ نہیں پایا جاتا۔ ان کا ذہن رسا ہے‘ نت نئے تصورات انہیں سوجھتے چلے جاتے ہیں‘ جو وہ اپنے قریبی ساتھیوں سے شیئر بھی کرتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ انکی وفاقی اور صوبائی وزراءکی ٹیمیں شاطر‘ آزمودہ اور جگادری ہیں۔ عمران خان کو انہیں کنٹرول کرنے اور نئے سفر کی جانب راغب کرنے میں دشواری پیش آتی ہے‘ تاہم وہ دل سے فیصلہ کر چکے ہیں کہ جو وزیر انکی منشاءکے مطابق کام نہیں کریگا اسے چلتا کرینگے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کے ذہن میں کارکردگی ہے‘ اس خاطر وہ خود انتھک کام کر رہے ہیں اور دوسروں سے بھی توقعات رکھتے ہیں‘ اسکے باوصف انہیں سیاسی سطح پر جو ہنر نہیں آتا‘ وہ اپوزیشن اور دیگر سیاسی مخالف جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔ اسی لئے انہوں نے تاحال اپوزیشن جماعتوں سمیت دیگر پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کی کسی لیڈر شپ کے ساتھ تعاون‘ رابطہ یا ملاقات نہیں کی‘ یہ بڑی کوتاہی اور غفلت ہے‘ جس کا خمیازہ خود حکمران جماعت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے نواز شریف‘ انکے خاندان‘ مقدمات اور دیگر تنازعوں بارے کم بات کرتے ہیں‘ انکی یہ حکمت عملی خاصی مثبت ہے۔ اگر حکمران ہمہ وقت سیاسی مخالفین بارے دشنام طرازی اور مخالفانہ بیانات دیتے رہیں تو اس کے نتیجے میں سیاسی فضا مکدر ہو جاتی ہے‘ جس کا حکمرانوں کی کارکردگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے‘ تاہم ایسا بھی نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی توجہ اپنے بدترین سیاسی مخالفین کے ہدف سے بالکل ہٹ گئی ہے۔ وہ نواز شریف اور ان کی فیملی بارے اگرچہ زباں حال سے کم بات کرتے ہیں لیکن ان کیخلاف حکمت عملی اور منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انکے مقابلے میں مسلم لیگ ن‘ اس کی لیڈر شپ‘ شہباز شریف و دیگر رہنما قدرے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں حکومت بنانے کیلئے بھی مسلم لیگ ن نے کوئی خاص کام نہیں کیا‘ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو گئی۔ آگے کیا ہوتا ہے‘ کچھ پتہ نہیں‘۔
عجب اک سّرِ مبہم ہے....
Sep 13, 2018