محرم کا مہینہ اور محرم راز

آج یکم محرم ہے اور میں نے پہلا فون محسن و محبوب دوست محمد حسین اکبر کو کیا۔ اس شخص کی معاونت بھری قیادت میں چند برس پہلے کربلا میں ہم تھے۔ یہاں ہر شخص رو رہا تھا۔ اتنا ہجوم میں نے روضہ اطہر مدینہ میں دیکھا اور پھر کربلا میں دیکھا۔
رسول کریمؐ نے فرمایا… لوگو۔ رویا کرو رو نہیں سکتے ہو تو روتے ہوئے آدمی جیسی شکل بنا لو۔ سب سے زیادہ رونے والے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وہ معراج پر تشریف لے جا رہے تھے تو انؐ کے سامنے تین مشروب پیش کئے گئے۔ آپؐ نے دودھ کاگلاس اٹھا لیا۔ انہوں نے فرمایا کہ فرشتو تم جانتے ہو کہ میں اللہ کے پاس عاجزی لے کے جا رہا ہوں‘‘۔ عاجزی انسان کی شان ہے، جو عاجز بندہ نہیں، وہ بندہ ہی نہیں۔
عاجزی بندے کی پہچان ہے اور رسول کریمؐ سارے بندوں کے مولا ہیں۔ دوستو! عاجز بنو مگر مغرور کے سامنے نہیں۔ اس کا غرور خاک میںملا دو۔ حسینؓ نے اپنی عاجزی سے سارے یزیدوں کا غرور خاک میں ملا دیا۔
شہر بھی ہوتے ہیں تاریخ بنانے والے
میں اعتراف کرتا ہوں اور ’’صدر‘‘ زرداری صاحب کا شکریہ بھی کرتا ہوں کہ ان کی دوستانہ مہربانی نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں چند روز دیار حجازؐ میں گزاروں اور شکریہ محمد حسین اکبر کا کہ ان کی مہربانی سے میں کربلا میں چند روز قیام کر سکا۔
عشق رسولؐ اور غم حسینؓ میں کچھ تو قدر مشترک ہے کہ میں نے لوگوں کو محبت میں سرشار دیکھا اور کچھ کچھ بے قرار دیکھا۔ میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی محبت حسینؓ سے کی کم کم کسی سے کی ہو گی۔
مجھے غم بھی ان کا عزیز ہے
کہ یہ انہی کی دی ہوئی چیز ہے
’’صدر‘‘ زرداری سے کوئی رابطہ نہیں مگر محمد حسین اکبر سے ہے۔ سارے حکمران تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں اور سارے محکوم بھی تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مجھے محکوم لوگ پسند ہیں کہ وہ مظلوم بھی ہوتے ہیں۔ محکوم مظلوم اور معصوم۔
65ء کے لئے آرمی چیف سپہ سالار اعلیٰ جنرل باجوہ نے تقریب کی۔ وہاں وزیراعظم عمران احمد خان نیازی بھی تھے۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ پیغمبروں کے بعد مرتبہ شہیدوں کا ہے، پیغمبر بھی اندر سے شہید ہوتے ہیں۔ شہید زندہ ہوتے ہیں مگر ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ ہم جس کا ادراک نہیں رکھتے وہی بڑی چیز ہوتی ہے۔ جو نظر نہیں آتا وہی اصل چیز ہے۔
اللہ سب سے بڑا ہے اور نظر نہیں آتا وہی ہمارے دل میں ہے، بریڈ فورڈ انگلینڈ سے ایک پاکستانی خاتون مجھے ملنے آئی تھی۔ اس نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ آپ یہاں رہتے ہو؟ میں نے کہا نہیں میں یہاں نہیں رہتا۔ وہ مزید پریشان ہوئی۔ پھر کہاں رہتے ہو۔ میں نے کہا میں اپنے دل میں رہتاہوں۔ اس کی بے چینی ختم ہوگئی۔
آج نوائے وقت میں ایک شاندار کالم برادرم اکرم چودھری نے لکھا ہے اس کا عنوان بھی بہادر خاتون، کلثوم نواز ہے، اس کے بعد میں کلثوم نواز کے لئے لکھوں گا۔
ڈاکٹر راشدہ قریشی کے لئے پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں وہ ایک مخلص ماہر تعلیم ہے وہ جس بھی تعلیمی ادارے میں گئی اسے اپنے دل کی طرح بنا دیا۔ انہیں گورنمنٹ کالج رائے ونڈ میں پرنسپل لگایا گیا اس کالج کی خوش قسمتی کہ پروفیسر ڈاکٹر راشدہ قریشی نے یہ بات قبول کر لی۔ وہ اس کام سے کبھی انکار نہیں کرتی مگر ڈائریکٹر ایجوکیشن نے وہاں کسی جونیئر کو بھیج دیا
کوئی ڈائریکٹر ایجوکیشن سے پوچھنے والانہیں ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کریں۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں اس طرح کے معاملات میری سمجھ میں نہیں آ رہے۔ عمران خان کی حکومت میں ایسے لوگ ہیں جوصورتحال کو بدل دیں گے اور ہر آدمی کے لئے آسانی اور اچھائی ہو۔ اب ملازمتوں کے لئے بھی کوئی قانون اور ڈسپلن ہونا چاہئے۔ اچھے قابل اور جذبے والے لوگ تو ہر دور میں خوار ہوتے رہے ہیں۔
محرم کے مہینے میں تو دوستوں کو محرم راز ہونا چاہئے
اسے کہنا محرم آ گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن