پاکستان کرکٹ بورڈ ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام بدل چکا ہے۔ رواں سال قائد اعظم ٹرافی میں چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ محکموں کی ٹیمیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ اب ملکی کرکٹ کا مستقبل علاقائی ٹیموں سے وابستہ ہے۔ محکمہ جاتی ٹیموں کی حمایت کرتے کرتے عبدالقادر منوں مٹے تلے جا سوئے۔ ملک بھر سے کرکٹرز کی بڑی تعداد نے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کی حمایت میں آواز بلند کی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے عین جمہوری انداز میں تمام آوازوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نیا نظام متعارف کروایا ہے۔ اس نظام سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں، کھیل کو فروغ ملتا ہے یا نہیں، معیار بلند ہوتا ہے یا نہیں اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ محکمہ جاتی کرکٹ کا خاتمہ خالصتاً آمرانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ تمام جمہوری طریقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، عوامی رائے کو مسترد کرتے ہوئے، سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیے بغیر ملکی کرکٹ کو چھ ٹیموں تک محدود کر دیا گیا ہے اس وقت بات اس پر کی جا رہی ہے جو ہو چکا ہے، نیا نظام کامیاب ہوتا ہے یا ناکام اس پر تعریف یا تنقید تو الگ ہے۔ اس وقت متاثرین کے احتجاج و گفتگو کا مرکز محکموں کی ٹیموں کا بند ہونا ہے۔ احسان مانی، ان کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان اور ان کے رفقاء بڑے زور و شور کیساتھ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کا نظام ٹھیک نہیں تھا، اس نظام کی وجہ سے ٹیم کی کارکردگی عدم تسلسل کا شکار رہی ہے، کرپشن بہت ہے،کھلاڑیوں کو مقابلے سے بھرپور کرکٹ کھیلنے کو نہیں ملتی، نوجوان معیاری کرکٹ سے محروم ہیں۔ کئی اور دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہماری ٹیسٹ اور اور ون ڈے رینکنگ خاصی نیچے ہے۔ یہ دلائل پیش کرتے ہوئے محکمانہ کرکٹ کی موت کے پروانے پر دستخط کیے گئے ہیں۔
جتنی خرابیاں محکمہ جاتی کرکٹ میں بتائی گئی ہیں، جتنی برائیاں ڈیپارٹمنٹ کرکٹ میں بتائی گئی ہیں، جتنا برا بھلا اس نظام کو کہا گیا ہے کیا یہ نئے نظام کو نافذ کرنے کے لیے ضروری تھا؟ یا یہ باقاعدہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا حصہ ہے کہ اتنا برا کہو، اتنی غلط بیانی کرو اتنا متنفر کرو کہ سننے والا سچ سمجھنے لگے۔کیا نظام بدلتے ہوئے اسے فرسودہ ظاہر کرنے کے لیے تمام خرابیاں اور برائیاں اس کے سر ڈالنا ضروری ہے۔ اگر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ ٹیسٹ اور ون ڈے رینکنگ نیچے ہے تو یہ دلیل کیوں نہیں پیش کی جاتی کہ اسی نظام کے ذریعے ہم نے ٹیسٹ درجہ بندی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، اسی فرسودہ نظام کے ہوتے ہوئے ہم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی، اسی گلے سڑے نظام میں ہم ٹونٹی ٹونٹی کے عالمی چیمپئن بنے، اسی کرپٹ اور ناکام نظام کیساتھ ہم انیس سو بانوے میں فاتح عالم بنے، اسی غیر معیاری نظام نے ہزاروں خاندانوں کی زندگی بدلی، مقابلے سے عاری اسی نظام نے ہمیں کئی ورلڈ کلاس کھلاڑی دیے، اسی گھسے پٹے نظام میں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم کھیلتے رہے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ منسلک تمام بڑے اور فیصلہ ساز کرکٹرز اسی نظام کا حصہ رہے، اسی ٹوٹے پھوٹے نظام نے انکا طرز زندگی بدلا، اسی کمزور نظام نے انہیں پالا پوسا بڑا کیا، کھلایا پلایا، مشکلیں آسان کیں، آسائشیں بخشیں پھر بھی یہ نظام اتنا برا ہے تو یہ برائی جاری رہنی چاہیے تھی۔ اس فرسودہ نظام کو تو مزید مضبوط ہونا چاہیے تھا۔ خرابی علاقائی نظام میں تھی، کرپشن کی داستانیں وہاں زبان زدعام ہیں، ترقی وہاں نہیں ہوتی اور اسے برقرار رکھتے ہوئے متبادل نظام کو بند کیا گیا ہے۔بہرحال جب فیصلہ ہو چکا کہ سسٹم بدلنا ہے تو کوئی بہتر اور اچھا راستہ بھی استعمال کیا جا سکتا تھا آپ یوں بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم محکمانہ کرکٹ کو ختم کرتے ہوئے اس سے بہتر نظام کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم ان تمام محکموں کے مشکور ہیں جنہوں نے برسوں پاکستان کرکٹ کا ساتھ دیا، کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنایا، ملکی کرکٹ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے برعکس برسوں کی خدمات برا بھلا کہہ کر ختم کی گئی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بذریعہ وزیراعظم انہی محکموں پر سپانسر شپ کے لیے دباؤ بھی ڈلوایا جا رہا ہے۔ یہ کہاںکا انصاف ہے۔ اگر محکموں کا ناکام کردار ثابت کرنا تھا تو پھر ہر محکمے سے منسلک تمام کرکٹرز کی فہرست بھی پریزینٹیشن کا حصہ بنائی جاتی، کون کون کتنے عرصے تک کس محکمے کیساتھ جڑا رہا، کس محکمے سے کتنے کرکٹرز سامنے آئے، محکموں نے چار دہائیوں تک کرکٹ پر کتنا پیسہ خرچ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو چلانے والے اعلی دماغ کرکٹ بورڈ میں کیوں موجود ہیں؟
پاکستان کا نظام گلا سڑا تھا تو اس نظام کی نگہبانی، نگہداشت، رہنمائی اور دیکھ بھال تو کرکٹ بورڈ انتظامیہ کی ذمہ داری تھی اگر یہ نظام خراب تھا تو برسوں اس کو چلانے والے اعلی دماغ کیسے ہو سکتے ہیں۔ اگر نظام فرسودہ تھا تو اسکو چلانے والے آج کس بنیاد پر کرکٹ بورڈ میں موجود ہیں۔ اتنا عرصہ ناکام نظام کرکٹ کو تباہ برباد کرتا رہا اور یہ سارے ہنسی خوشی تباہی کے کاغذات پر دستخط کرتے رہے۔ اگر فرسودہ نظام بدلا ہے تو پرانے چہروں کے کریڈٹ پر کون سے عالمی اعزازات ہیں جو آج بھی عہدوں پر براجمان ہیں۔ محکموں کو بند کیا گیا ہے تو کیا اس فرسودہ نظام کے ساتھ چلنے والے آفیشلز کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ ایک ایسا نظام جس نے دہائیوں تک ملکی کرکٹ کی خدمت کی ہے اسے برا بھلا کہہ کر ہم دنیا میں کیا پیغام دے رہے ہیں۔ محکمہ جاتی کرکٹ کو باتوں سے برا ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کرکٹ کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت اس سے منسلک عظیم اور کامیاب کھلاڑیوں کی طویل فہرست ہے۔
نئے ڈومیسٹک سٹرکچر کی تعارفی پریس کانفرنس میں بھی اعدادوشمار کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی گئی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان میڈیا سے ناراض اور خفا خفا رہتے ہیں۔ انہیں بولتا دیکھ کر مراد سعید کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ مراد سعید کی طرح گفتگو میں زمین و آسمان کو ملا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں ساتھی رپورٹر اعجاز شیخ نے انہیں معین قریشی اور شوکت عزیز سے تشبیہ دی۔ دونوں کی کارکردگی اور تاریخ سب کے سامنے ہے۔وسیم خان نے جواب میں یہ بھی کہا کہ شکر ہے آپ نے میری تنخواہ کے بارے نہیں پوچھا۔ میڈیا وسیم خان سے ان کی تنخواہ بارے پوچھے تو وہ خاصا برا مناتے ہیں بالکل ویسے جیسے مراد سعید سے ان کی کارکردگی بارے پوچھا جائے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔
پرانے نظام کو برا بھلا کہنے میں وسیم خان سب سے آگے ہیں اس سے زیادہ ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ادارے کا چیف ایگزیکٹو حقائق عوام کے سامنے نہ رکھے یا انہیں تروڑ مروڑ کر پیش کرے اور صرف اپنے بیانیے کی حمایت میں بیان جاری کرواتا رہے۔ مصباح الحق کی تقرری کا اعلان کرنے والی پریس کانفرنس میں بھی ان سے سوال کچھ کیا جاتا اور وہ جواب کچھ دیتے تھے۔ اسی پریس کانفرنس میں مصباح الحق کی تنخواہ بارے سوال پر بھی وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ حالانکہ اسمیں چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ جب تمام اخراجات ویب سائٹ پر شائع کیے جاتے ہیں تو بڑی تنخواہوں والے افسران کے اخراجات جاری کرنے سے بھی پاکستان کرکٹ کی نیک نامی اضافہ ہی ہو گا بیرونی دنیا بہترین تنخواہیں ادا کرنے کے حوالے سے پاکستان کا بہت اچھا تاثر جائے گا اور غیر ملکی یہاں آ کر کام کرنے کی خواہش اور موقع ملنے پر کام کرنا اعزاز سمجھیں گے۔
محکمہ جاتی کرکٹ کو برا بھلا کہہ کر پی سی بی حکام وقتی فائدہ تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ محکموں نے ملکی کرکٹ کے خدمت کی ہے اور کھیل کے فروغ میں ان کا کردار کسی ملکی یا غیر ملکی کے کہنے سے کم نہیں ہو سکتا۔