بدقسمتی سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدارتی خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے ’’ ہنگامہ آرائی ، نعرے بازی، شور شرابہ، احتجاج اور واک آئوٹ ‘‘ کو ہماری ’’پارلیمانی روایت‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ کبھی کبھار اپوزیشن ہنگامہ آرائی پر تلی ہوتی ہے لیکن اکثر و بیشتر حکومت ایسی صورتحال پیدا کردیتی ہے کہ اپوزیشن کو احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا جواز مل جاتا ہے، بہت کم موقع پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے احتجاج یا ہنگامہ آ رائی نہ کی لیکن اب کی اپوزیشن صدر کے خطاب میںاحتجاج کیلئے پوری تیاری کر کے آئی تھی کیونکہ سپیکر اسد قیصر نے گرفتار ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس اس وجہ سے ملتوی کر چکے ہیں انہیں ’’اوپر ‘‘ سے گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی اجازت نہیں ملی جس کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کرنے میں عافیت سمجھی لیکن دو ہفتے گزرنے کے باوجود وہ گرفتار ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا اختیار استعمال نہیں کر سکے ان کی ’’بے بسی‘‘ پارلیمنٹ کا امن تباہ کرنے کا باعث بنی ایسا دکھائی دیتا ہے۔گرفتار ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ کر نے سے ’’پارلیمانی امن ‘‘ کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ۔ پارلیمنٹ میں صدارتی خطاب کے دوران اپوزیشن حکومت پر چھائی رہی، اپوزیشن کے شور شرابہ میں حکومتی ارکان صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خطاب پر جی بھر داد بھی نہ دے سکے۔