ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری
اہل بیت اطہار بنی نواع انسانی کی وہ اعلیٰ و ارفع ہستیاں اور شخصیات ہیں جن کے فضائل و مناقب قرآن مجید میں حدیثوں کی کتابوں میں صحابہ کرام و تابعین وتبع تابعین کی زبانوں پر سلف صالحین کی تحریروں میں مشائخ و اولیاء کے ملفوظات میں ملتا ہے۔ چونکہ ان کے فضائل و مناقب کے بیان کا آغاز خود اللہ جل شانہ نے اپنی زبان قدرت سے فرمایا ہے اس لیے ان کے فضائل و مناقب کو دبانے یا گھٹانے والے خود ختم ہو جائیں گے لیکن مناقب و فضائل اہل بیت اطہار کا یہ سلسلہ نہ رکا ہے اور نہ ہی رکے گا۔ آج اسلام کا یہ جھنڈا جو پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا ہے۔ دنیا کے چاروں کونوں تک سنتوں پر عمل ہو رہا ہے۔ شعائر اسلام کی پاس داری جاری ہے۔ قرآن مجید پڑھا جا رہا ہے۔ صاحبان ایمان اپنے دین سے وابستہ ہیں۔ مسلمان حرمت نیویؐ پر کٹنے مرنے کے لیے تیار ہیں تو یہ سب کچھ صدقہ ہے اہل بیت اطہار رسولؐ کا اور ان کی قربانیوں اور خدمات کا، کہ کس طرح انہوں نے دین مصطفویٰؐ اور شعائر اسلام کی حفاظت کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا اور قربانیوں کا یہ سلسلہ میدان بدر سے شروع ہوکر میدان کربلا سے ہوتا ہوا اور اپنی معراج کو پہنچتا ہوا اس کے بعد والے ادوار سے ہوتا ہوتا ہوا آج تک جاری و ساری ہے۔ قرآن مجید اہل بیت اطہار کی ان قربانیوں پر قیامت تک بطور گواہ موجود ہے۔ اہل بیت اطہار کی حیات طیبہ اور ان کی سیرت مطہرہ کا بغور مطالعہ کریں تو رسول اللہؐ کے گھرانے کے افراد اپنی جلالت شان شرف و عزت تقویٰ و طہاروت کے اعتبار سے قرآن مجید فرقان حمید کی آیات بینات کی عملی تفسیر نظر آتے ہیں۔ اس گھرانے کا ہر ہر فرد اپنے تمام معاملات و حالات کو اپنی منشا اپنی فکر اپنے خیالات اپنے مال اور اپنی جان تک کو اللہ جل شانہ اور اللہ کے رسولؐ کی مرضی کے تابع کیے ہوئے نظر آتا ہے۔ اہل بیت اطہار نیویؐ کی زندگیوں کا مقصد یہی تھا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ اور اللہ کے رسوليکے احکام پر عمل ہو۔ اوامرونواہی کی پاسداری کی جائے۔ معاشرے کے اندر اٹھنے والا کوئی قدم شریعت اسلامیہ کے خلاف نہ ہو۔ پھر اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی جائے۔ جس کی گواہی تاریخ اسلام کے قیمتی صفحات اور تاریخ کا غیر جانب دار طالب دے گا۔
امیر المومنین خلیفہ راشد سیدنا امام علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے زمانہ خلافت کے معاملات عین خداوند تعالیٰ کی مرضی اور رسول اللہؐ کی منشاء اور مرضی کے مطابق تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک امام عادل تھے۔ اگر کسی صاحب شعور فرد سے یہ پوچھا جائے کہ ایک اچھے حکمران میں کن صفات کا ہونا ضروری ہے تو اس کا پہلا جواب یہ ہوگا کہ وہ عادل ہو عدل و انصاف سے کام لینے والا ہو۔ ایک حکمران عادل جب ہی ہو سکتا ہے کہ جب وہ دنیا سے بے رغبت ہو اس کی نظر میں فانی دنیا کی کوئی حقیقت نہ ہو اور’’عدل بغیر زھد‘‘ کے حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔
امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے زیر سایہ نبی کریمؐ کی زیر نگرانی صحابہ کرام کی معیت و مصاحبت اور دنیاوی زندگی کے شب و روز پر غور و فکر کرتے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا کہ دنیا صرف آزمائش و امتحان گاہ ہے۔ آپ نے ان آیات قرآن کا بخوبی ادراک کیا تھا جو دنیا کی بے ثباتی بے وفائی اور اس کے فانی ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور آخرت کے دوام و ثبات اور ہمیشگی کو واضح کرتی ہیں۔
آپ کے زھدو تقویٰ اور دنیا کی بے ثباتی کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ ہارون بن عنترہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں کوفہ میں ایک جگہ جس کا نام خورنق ہے امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہ ایک پرانی چادر اوڑھے سردی سے کانپ رہے تھے۔ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا اے امیر المومنین! اللہ نے آپ کے لیے اور آپ کے خاندان کے افراد کے لیے اس مال میں حصہ رکھا ہے اور آپ سردی کی شدت سے کانپ رہے ہیں۔ فرمایا میں تمہارے مال میں سے کچھ نہیں لیتا فرمایا میری یہی چادر ہے جس کو میں اپنے گھر سے لے کر نکلا تھا۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ میری یہی چادر جس کو میں مدینہ سے لے کر نکلا تھا۔
اس مقام پر ٹھہر کر دل پر ہاتھ رکھ کر یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کیا بات ہے جو خلیفہ راشد امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو ناداروں جیسی زندگی گزارنے اور سخت سردی جھیلنے پر مجبور کر رہی تھی حالانکہ آپ اس وقت گرم اور عمدہ لباس خرید سکتے تھے۔ یقینا یہ حقیقی زھد کا زندہ شعور تھا جو آپ کو متاع دنیا م لنے کے باوجود اس سے روک رہا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا آپ درس گاہ نبویؐ کے تربیت یافتہ تھے حقیر و فانی دنیا سے بے زاری اور دائمی ہمیشہ کے اخروی نعمتوں کی طلب کے ماحول میں پرورش پائی تھی اور آپ کے مربی تاج دار دو عالم محمدؐ تھے۔
یہ امیر المومنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ ہی تھے جن کا فرمان عالی شا ن تھا کہ خلیفہ کے لیے بیت المال سے دو پیالوں سے زیادہ خوراک لینا جائز نہیں۔ پھر اس فرمان کی وضاحت بھی فرمائی کہ ایک پیالہ اس کے اور اس کے گھر والوں کے لیے اور دوسرا پیالہ جسے وہ دوسروں کے سامنے پیش کرے۔ حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ رضی اللہ ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے آپ نے لوگو اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے میں نے تمہارے مال سے نہ تھوڑا لیا نہ بہت سوائے اس ایک چیز کے پھر جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی جس میں عطر تھا۔ آپ نے کہا مجھے یہ ایک دیہاتی نے بطور ہدیہ دیا تھا۔ پھر آپ بیت المال شریف لے گئے اور کہا یہ لے لو اور شیشی بیت المال میں جمع کروا دی اور ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’کامیاب ہوا وہ کہ جس کے پاس لکڑی کا ایک ڈبہ ہو اور وہ اس میں سے روزانہ ایک کھجور نکال کر کھا لیتا ہو۔
سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق اللہ کے نبی کی پیشن گوئی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ وہ مسلم گروہوں کے درمیان مصالحت کرا دے گا یہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے لیے ایک اشارہ اور تلقین بھی تھا جو ان کی پوری زندگی میں ان کے خیالات رحجانات اور اعمال کا رخ متعین کرنے اور ایک معیار قائم کرنے کا اشارہ دے رہا تھا اور نبی کریمؐ کا یہ ارشاد پاک سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے قلب کی گہرائیوں میں اتر کر ان کے اعصاب و احساسات پر طاری رہا ہوگا۔ اور اس کی حیثیت ان کے نزدیک اس کے رسولؐ کی وصیت کی سی ہوگی اور جب انہوں نے یہ بات اللہ کے رسول سے سنی ہوگی جو آپ کے جدامجد بھی تھے اور نبی برحق بھی تھے کہ یہ بات آپ کی شفقت و محبت کا سبب ہے تو سیدنا امام حسین نے آپؐ کے چہرہ انور پر مسرت کی لہر اور آنکھوں میں امید کی چمک بھی دیکھی ہوگی اور اس کی اپنی زندگی کے مقاصد میں بڑا مقصد اعلیٰ ترین اسوہء و نمونہ او ر اپنے مستقبل کے لیے رہنما اصول قرار دیا ہوگا۔ پھر جب آپ کو زہر دیا گیا تو جاننے کے باوجود آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو زہر دینے والے کا نام نہیں بتایا وہ خدا رحمت کند ابن عاشقان پاک … امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مدینہ کے بازار میں یہ کہا کرتے تھے’’یااللہ میں 60 ہجری کا زمانہ نہ پائوں، یااللہ میں لڑکوں کی حکومت کا زمانہ نہ پائوں اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور 89 ہجری میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ یزید کا تخت نشین ہونا اسلامی معاشرے کے لیے کڑا امتحان تھا۔ یزید نے اپنی ڈکٹیٹر شپ کے استحکام کے لیے اسلامی معاشرے کے خواص سے بیعت لینا ضروری سمجھا اور اس بارے میں ایک حکم نامہ گورنر یزید ولید بن عقبہ کے ذریعہ مدینہ کے خواص خصوصاً سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بھجوایا انکار بیعت یزید کا نتیجہ کیا رنگ دکھا سکتا تھا۔ یہ بھی سیدنا امام حسین پر خوب واضح تھا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا فرزند رسول کے ہوتے ہوئے حرم نبوی کو یزیدی فوج کے ناپاک قدم پامال کریں۔ دین اور شعائر کی حرمت اور ان کی حفاظت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا مقصد حیات تھا۔ اور فاسق کی بیعت سے انکار بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری تھی چنانچہ اس کی قیمت یہ ادا کرنی پڑی کہ دارالسلام مدینۃ الرسول کو چھوڑ بمعہ خاندان مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے مکہ مکرمہ میں بھی فاطمہ کے دل بند کو چین سے رہنے نہیں دیا گیا بیعت کا مطالبہ شدت پکڑتا گیا جو خطرہ مدینہ منورہ میں تھا یعنی حرمت حرم نبوی کا وہی خطرہ مکہ میں بھی منڈلانے لگا کیونکہ یزید اور اس کے مواری یہ جانتے تھے کہ جب اس خاندان نبوت کی مہر اس حکومت پر نہیں لگے گی اس کو جزیرۃ العرب میں کوئی اہمیت نہیں دی جائیگی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی موجودگی یزید کے اقتدار کے استحکام میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اس کو دور کرنے کے دو ہی طریقے تھے یا تو امام حسین ؓبمعہ اپنے رفقاء بیعت کر لیں یا پھر ان کو بمعہ ان کے رفقاء کے ختم کر دیا جائے ثانی الذکر کا خطرہ بڑھتا جاتا تھا ادھر یزید کی عیاشیاں اور دین ہے دوریاں بڑھتی جا رہی تھیں جس کے باعث عوام الناس میں بے چینی پھیل رہی تھی۔
خاص طور پر کوفہ کے عوام میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پایہ تخت رہ چکا تھا وہاں کے باشندوں نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھے اور مطالبہ کیا کہ آپ یہاں تشریف لائیں اور یزید کی شعائر اسلام کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکیوں کا خاتمہ فرمائیں اور ہم آپ کی بیعت کے لیے تیار ہیں۔ سیدنا امام حسینؓ نے ان خطوط اور مراسلوں کے جواب میں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو کوفیہ بھیجا جہاں پہنچتے ہی ہزار ہا لوگوں نے ان کے ہاتھ سیدنا امام حسینؓ کے لئے بیعت کی۔ اس خبر کے ملتے ہی یزید نے کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو معزول کر کے ایک سفاک ظالم اور بے رحم شخص عبیداللہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا اور اس نے آتے ہی یہ حکم صادر کیا یزید کی بیعت فسخ کرنے والوں کو ان کے بال بچوں سمیت قتل کر دیا جائے گا اور ان کے گھروں کو گرا دیا جائے گا۔ کوفہ والے اس حکم نامے سے ڈر گئے۔ حضرت مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے بعد ازاں ان کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
ادھر سیدنا امام حسینؓ مکہ مکرمہ سے روانہ ہو چکے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اعزا و اقربا خاندان اہل سنت کے افراد مرد و زن اور آپ کے ساتھی تھے۔ سیدنا امام حسینؓ بار بار اپنے خطاب میں یہ فرماتے کہ میں اللہ جل شانہ کے دین کے استحکام نبی کریمؐ کی سنت مطہرہ کا احیاء اور فسق و فجور کا قلع قمع کرنے نکلا ہوں اور اس راہ میں حاصل ہونے والی کامیابی کا نام شہادت ہے راستے میں کئی ایسے لوگ بھی ملے جنہوں نے سیدنا امام حسینؓ کو اس سفر سے باز رہنے کی تلقین بھی کی ،لیکن سیدنا امام حسینؓ ان کے اس سفر کے اصل مقصد اور غرض و غایت سے آگاہ کرتے تھے بالآخر آپ اس مقام پر پہنچ ہی گئے جس کا نام تاریخ میں کرب و بلا یعنی کربلا ہے۔ کربلا ہی وہ مقام ہے جہاں یہ عظیم معرکہ بپا ہوا آپ نے یہاں خیمے نصب کرنے کا حکم دیا۔ یزیدی افواج کے قافلے آتے رہے ان کے سردار بھی آتے رہے۔ یہ سرداران جہاں اپنی شقاوت اور سفاکی میں اپنی مثال آپ تھے وہیں بدبختی بھی ان کی منتظر تھی۔ ان بدبختوں نے دریائے فرات سے پانی کی فراہمی کو معطل کردیا اور دریا پر پہرے بٹھا کر سیدنا امام حسینؓ اور ان کے خانوادے پر پانی بند کردیا۔
سیدنا امام حسینؓ 9 محرم تک خطباتِ اصلاحیہ کا سلسلہ جاری رکھا اور یزید لشکر کو جہنم کی طرف جانے سے روکتے رہے۔ ایک خوش بخت حر بن یزید ریاحی معافی طلب کر کے سب سے پہلے جام شہادت نوش کرنے والا بن گیا۔
9 محرم کا دن گزارنے کے بعد جو رات آئی تاریخ اسلام میں اسے شب عاشور کہا گیا ۔ شب عاشور ان معنی میں بڑی فضیلت والی رات ہے کہ اس روئے زمین پر حق کے سب سے بڑے نمائندوں کی جماعت اپنے رب کی عنایت میں مصروف رہی اور اس بات پر اپنے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتی رہی کہ اسے سب سے بڑا فریضہ ادا کرنے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی نظر میں سب سے زیادہ پسندیدہ عبادت کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔عاشورہ محرم کو فجر کی نماز کے بعد سے ہی قربانیوں کا وہ عظیم سلسلہ شروع ہوا جو شاید تاریخ عالم میں اپنی نوعین کا پہلا اور آخری واقعہ ہے۔ تاریخ انسانی کوئی ایسے واقعہ اور قربانی کی کوئی ایسی دوسری مثال نہیں ملتی ۔۔