لاہور موٹر وے پر ہونے والے واقعے نے ہر ذی شعور پاکستانی کو اپنی جگہ ہلا کے رکھ دیا ہے ۔ کاش جب زینب بچی کا واقعہ ہوا اور ہم سب شور مچاتے رہ گئے کہ ملزموں کو سر عام پھانسی کی سزا دی جائے اس وقت یہ قانون بن جاتا تو آج ایک ماں یوں سر عام اپنی اولاد کے سامنے بے آبرو نہ ہوتی ۔کتنی معصوم کلیاں وحشی درندوں کے ہاتھوں مسلنے سے بچ جاتیں ۔ یہ صرف ایک ماں کی عصمت ریزی نہیں ہوئی بلکہ ان معصوم بچوں کی آغوش کا بھرم ٹوٹا ہے ۔ ان کے بچپن کی معصومیت کا قتل ہوا ہے ۔ ان کا دنیا اور انسانیت سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور خوف کے اندھے کنوئیں میں جس طرح انہیں اٹھا کے پھینکا گیا ہے زندگی بھر اس تاریکی سے شاید وہ باہر نہ نکل سکیں اور اصل سزا تو باقی زندگی ہے جو اب ان بچوں نے اور ان کی ماں نے کاٹنی ہے ۔ ا س سے قبل کراچی میں پانچ سالہ کمسن بچی مروہ کو اس کے پڑوسی نے زیادتی کے بعد قتل کر کے جلا ڈالا اور لاش کچرے میں پھینک دی گئی اور ہم صرف منہ دیکھتے رہ گئے ۔ کے پی کے میں خواجہ سرا گل پنڑا کا زیادتی کے بعد قتل ہوا اور پھر بھی ہم خاموش رہے ۔ کراچی تا خیبر سر بازار عصمتیں لٹ رہی ہیں ہمارے ایوانوں میں خاموشی طاری ہے ۔
چند روز قبل لاہور سے گوجرانوالہ کا رات کو سفر کرنیوالی فرانسیسی نژاد بدقسمت خاتون جو گاڑی میں پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے موٹر وے کے نزدیک سڑک پہ اپنی گاڑی کے اندر اپنے دو بچوں کے ساتھ موجود تھی وہاں سے گزرتے دو افراد نے کھڑی گاڑی کے شیشے توڑ کر خاتون کو باہر نکال کر اسکے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ۔ کانسٹیبل علی عباس کے مطابق موقع پر پہنچے تو گاڑی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور اس میں کوئی نہیں تھا ۔ ٹارچ جلائی تو بچے کا جوتا نظر آیا ، کھائی میں اترے تو بچے کا دوسرا جوتا نظر آیا اندھیرا بہت تھا ، کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ ڈولفن اہلکار نے مزید بتایا کہ اس نے آواز لگائی کہ کوئی ہے اور 6 ہوائی فائر کئے ۔ نیچے اترے تو خاتون کے منہ سے بھائی کا جملہ نکلا ۔ علی عباس قریب پہنچے تو دیکھا خاتون نے بچوں کو حصار میں لیا ہو ا تھا اسکی حالت دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔انہی میں سے ایک موقع پر موجود اہل کار کا کہنا تھا کہ خاتون ہماری منتیں کرتی رہی کہ مجھے گولی مار دو ، وہ ہمیں خدا کا اپنے بچوں کا واسطہ دے رہی تھی کہ مجھے زندہ نہیں رہنا ۔ بحیثیت معاشرہ ہم اس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں کہ ایک اکیلی خاتون جو دو بچوں کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور مجبوری میں اگر اسے مدد چاہیے تھی تو پاس سے گزرنے والے یہ دو افراد اسکی مدد کی بجائے وحشی درندے بنے اسکی عزت اور بچوں کی معصومیت کو ہی روند گئے ۔ خاتون نے مدد کیلئے پولیس ہیلپ لائن فون کیا تو جواب ملا یہ علاقہ ہمارے انڈر نہیں آتا ۔ سی سی پی او لاہور کا بیان کہ خاتون کو گوجرانوالہ سے لاہور روانگی کے وقت گاڑی کا پٹرول چیک کر کے نکلنا چایئے تھے او ر یہ کہ خاتون نے ٹھیک راستے کا انتخاب نہیں کیا انہیں جی ٹی روڈ سے جانا چاہیے تھا ۔ موٹر وے پولیس کے بقول واقعہ لاہور رنگ روڈ کالا شاہ کاکو انٹر چینج سے آٹھ کلو میٹر دور پیش آیا لہذا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ، ہمارے اداروں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کی بد ترین سطح پر پہنچ چکا ہے ۔ درندگی کے بڑھتے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی انسانوں کا نہیں کسی جنگلیوں ، وحشیوں کا کوئی سماج ہے جہاں خونی بھیڑئیے سر عام دندناتے پھرتے ہیں اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ بے حس حکمران ، بے حس عدالتیں ، بے شرم انسانوں کا معاشرہ، حالیہ واقعات میں اگر اب تک کسی ایک مجرم کو بھی عبر ت کا نشان بنایا ہوتا تو آج ایک ماں اپنی اولاد کے سامنے رسوا نہ ہوتی اور کتنے معصوم فرشتے شیطانیت کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جاتے ۔ ہمارا قانون صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے جب جرم کسی غریب یا عام آدمی نے کیا ہوا امیروں اور وڈیروں کیلئے تو یہ پورا نظام تھانوں سے لیکر عدالتیں محافظ بن جاتی ہیں جیسا کہ ابھی چند دن قبل ٹریفک سارجنٹ کیس میں ہوا ایک ایسا واقعہ جس کی پوری ویڈیو موجود ہے جس کا عینی شاہد پورا پاکستان تھا ، اس میں مجید اچکزئی جیسے طاقتور شخص کو بے گناہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ ثبوت ناکافی ہیں ۔ اسی طرح ایک اور المیہ یہ ہے کہ بلا اجازت اور بلا تردد لوگ جنسی زیادتی کا شکار ہونیوالے متاثرین کی تصاویر انکی ذاتی زندگی کے حوالے سے معلومات کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ درندے جو اس جرم کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس کو تھانے اور عدالت لے جاتے ہوئے منہ چھپا دئیے جاتے ہیں ۔
ظلم و بربریت کے ایسے دلخراش وا قعات ہمارے بیمار معاشرے کے عکاس ہیں جس کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ ان بڑھتے واقعات کو روکنے کیلئے سرعام پھانسی سے لیکر سخت ترین سزائوں کو فوری نافذ کرنا ہو گا۔ اسکے علاوہ ہمیں ان عوامل کا بھی جائزہ لینا ہو گا جن کی وجہ سے ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسی عجیب اور انوکھی قوم ہیں جو دینے پر آئیں تو دنیا میں سب سے زیادہ چیریٹی کرنیوالے لوگ یہاں پائے جاتے ہیں ، حج عمرے ، رمضان ، محرم اور ربیع الاول ہردینی موقع پر پیش پیش اور جب دوسری طرف فحش مواد دیکھنے میں بھی سب سے آگے۔ جب معاشروں میں حد سے زیادہ گھٹن بڑھ جائے تو پھر ایسی حیوانیت جنم لیتی ہے جس سے پھر کوئی محفوظ نہیںرہتا۔خدارا لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں ، نکاح کو آسان بنائیں ، زیادہ سے زیادہ کھیل کے میدان بنائیں ، ٹی وی چینلز پر ایسے ڈرامے دکھائے جائیں جن سے معاشرے کی کردار سازی ہو سکے نہ کہ ہر رشتے کا تقدس پامال کر کے اس پہ سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے جائیں ۔ اپنی زندگیوں کو اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق قرآن و سنت کو اپناتے ہوئے گزاریں ۔
میری وزیر اعظم اور چیف جسٹس صاحب سے پر زور اپیل ہے کہ فوری طور پر سر عام پھانسی کا قانون بنایا جائے اور اس کا نفاذعمل میں لایا جائے۔ آخر کب تک ہر سانحے کے بعد بات مذمت اور نوٹس لینے تک ہی محدود رہے گی ۔ سرکار بہت مذمتیں ہو چکیں اب حل تلاش کیجئے۔
٭…٭…٭
اور پھر سانحہ پہ سانحہ ہوا۔۔۔!!
Sep 13, 2020