نواز شریف کی ’’واپسی‘‘ 

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی وطن واپسی بارے میں سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ حکومت انہیں راتوں رات گرفتار کر کے ایک بار پھر جیل ڈالنا چاہتی ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف اپنا علاج مکمل کرا کر ہی وطن واپس آئیں گے۔
 پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ’’مجرمان‘‘ کی ’’حوالگی ‘‘ کا کوئی ایسا معاہدہ بھی نہیں کہ برطانوی حکومت میاں نواز شریف کو جہاز میں بٹھا کر حکومت پاکستان کے حوالے کر دے لہذا اب تک حکومت کی طرف سے میاں نواز شریف کی واپسی کے لئے کی جانے والی کوششیں ’’مفروضوں ‘‘ پر مبنی ہیں۔ میاں نواز شریف گذشتہ 11ماہ سے علاج کے سلسلے میں لندن میںان ہی ایون فیلڈ فلیٹس میں مقیم ہیں جن کی ملکیت بارے میں انہیں عدالتوں کے چکر لگوائے گئے ۔ میاں نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں اپنے ’’ناکردہ ‘‘ گناہوں کی سزا بھگت رہے تھے کہ ان کے پلیٹلٹس خطرناک حد گر گئے جس سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے۔ حکومت نے میاں نواز شریف کی علالت کے بارے میں تین مختلف اداروں جن میں شوکت خانم میو ریل ہسپتال بھی شامل ہے کی میڈیکل رپورٹس کے بعد ہی میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے اجازت دی انہیں 6 جولائی 2018ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال قید بامشقت کی سزا ہوئی جبکہ 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کیا گیا اس پر طرفہ تما شا یہ کہ نیب سے تعاون نہ کرنے پر مزید ایک سال قید کی سزا دی گئی۔نواز شریف کو گرفتاری کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ 
24 دسمبر 2018ء العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید، 3 ارب 75 کروڑ روپے جرمانہ ہوا، تاہم فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دئیے گئے۔ 24 دسمبر 2018ء کو نواز شریف کو اڈیالہ جیل سے کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا۔ 22 اکتوبر 2019ء کو خطر ناک حد پلیٹ لیٹس کم ہونے پر نیب دفتر سے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا۔ 23اکتوبر کو پلیٹ لیٹس کی تعداد 6 ہزار تک پہنچ گئی ان کی حالت بگڑنے پر ڈاکٹرز کا بورڈ بنایا گیا۔ مریم نواز کو بھی انسانی ہمدردی کے تحت والد کی تیمارداری کیلئے جیل سے سروسز ہسپتال لایا گیا۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی حالت اس حد خراب ہو گئی تھی‘ کوئی ڈاکٹر انکے علاج کے ہاتھ ڈالنے کیلئے تیا نہیں تھا 25 اکتوبر 2019ء کو ایک ایک کروڑ کے مچلکوں پر نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ اور 2 روز بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔ مریم نواز کو بھی لاہور ہائی کورٹ نے سات کروڑ کے مچلکوں سمیت پاسپورٹ جمع کروانے کی شرط پر ضمانت پر رہا کر دیا۔اسی دوران 6 نومبر کو نواز شریف کو سروسز ہسپتال سے جاتی امرا منتقل کیا گیا، جہاں ان کی رہائشگاہ پر ہی آئی سی یو بنایا گیا جس کے بعد شہباز شریف نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے اور بیرون ملک علاج کیلئے وزارت داخلہ کو درخواست دی۔وفاقی کابینہ نے 7 ارب سے زائد کا شورٹی بانڈ جمع کرانے پر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دیدی۔ نواز شریف اورمسلم لیگ نے حکومتی شرط کو مسترد کر دیا اور لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی۔16 نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کاحکم دیدیا اور شورٹی بانڈ کی حکومتی شرط معطل کردی۔
 حکومت نے میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کو ساڑے سات ارب روپے کی ضمانت سے مشروط کر دیا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے انہیں 50روپے کے اشٹام پر بیرون ملک علاج کرانے اجازت دے دی ۔چارو ناچار حکومت کو لاہور ہائی کورٹ کا حکم تسلیم کرنا پڑا نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد ہی ان کے بارے میں حکومتی حلقوں کی جانب سے تنقید شروع ہو گئی تھی لیکن ان کے قیام میں طوالت حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بن گئی۔ اس دوران  میاں نواز شریف کی آکسفورڈ سٹریٹ میں چہل قدمی چائے سے لطف اندوز ہونے کی تصاویر کے وائرل ہو گئیں جس نے پاکستان میں ان کے سیاسی مخالفین کی نیندیں حرام کر دیں ۔ جس کے بعد حکومتی حلقوں کی جانب سے میاں نواز شریف کی وطن واپسی بارے میں نیا ’’بیانیہ‘‘ سامنے آگیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے کر غلطی کی ہے‘‘۔
 شاید ہی وفاقی کابینہ کا کوئی اجلاس ہو جس میں میاں نواز شریف کی شخصیت موضوع گفتگو نہ بنی ہو۔ بعض اوقات وزراء کے بیانات دیکھ کر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی پاکستان کا مسئلہ نمبر1ہے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے پاس اپنی وزارت کی کارکردگی بتانے کیلئے کچھ نہیں لہذا وہ بھی صبح و شام میاں نواز شریف پر طبع آزمائی کر کے ایک نیا راگ الاپتے ہیں۔ اب تو انہوں نے شیخ رشید احمد نے اپنے سابق قائد میاں نواز شریف کو ’’بزدل ‘‘ہونے کا طعنہ دے دیا ہے حالانکہ وہ بہتر سمجھتے ہیں کہ جو شخص اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتا ہے وہ کسی صورت بزدل نہیں ہو سکتا۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں میاں نواز شریف کی اپیل میں ان کی موجودہ پوزیشن میں دائر متفرق درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کر لئے ہیں جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا ہے کہ ’’ کیا توشہ خانہ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دئیے جانے کے بعد ہم ان کی درخواست پر سماعت کر سکتے ہیں ؟ 
دوسری طرف نیب ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کی ضمانت منسوخ کرانے پر مصر ہے۔ اب عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیس سننے سے پہلے میاں نواز شریف کے سرنڈر کرنا ضروری ہے یا وہ ریلیف کے مستحق ہیں ۔
 ایون فیلڈ ریفرنس میں سزائوں کیخلاف نواز شریف، مریم نواز اورکیپٹن(ر)صفدر نے اپیلیں دائر کر رکھی ہیں جن کی سماعت نواز شریف کیس سے الگ کر دی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں مریم نواز پیش ہوئیں تو مسلم لیگی کارکنوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اس طرح لاہور کے بعد اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) نے اپنا شو آف پاور کیا ہے۔ مریم نواز نے چپ کا روزہ بھی توڑ دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے مریم نواز آنے والے دنوں میں ملکی سیاست میں سرگرم حصہ لیں گی۔ 
رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اکتوبر2020ء تک میاں نواز شریف علاج کے معاملات حل ہوں گے تو اس کے بعد وطن واپسی ہوگی حکومت اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں میاں نوازشریف وطن واپس نہ آجائیں۔ جس کیس میں نوازشریف کو سزا ہوئی ہے سزاسنانے والاجج بھی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے اور میاں نواز شریف کی واپسی کا معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا بہرحال پاکستان کی جیل میں قید نواز شریف حکومت کے لئے زیادہ زیادہ’’خطرناک‘‘ ہو گا۔ وہ ہر وقت حکومت کے اعصاب پر سوار ہو گا ۔
٭…٭…٭

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن