تہران (نوائے وقت رپورٹ) بحرین کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے کے بعد ایران نے انتباہی انداز میں کہا ہے بحرین اب اسرائیل ’جرائم‘ میں حصہ دار بن گیا ہے۔ عرب ریاست بحرین نے 11 ستمبر کو فیصلہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے گی۔ اس فیصلے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی طرف اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں تنہائی کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کی ان سفارتی کوششوں کا ایک مقصد مشرق وْسطیٰ میں ایران کی مخالف ایسی ریاستوں کے درمیان تعاون بڑھانا ہے جو ایران کے خلاف امریکی تحفظات میں شریک ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور بحرین کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کا اعلان نائن الیون حملوں کو 19 برس مکمل ہونے کے موقع پر کیا۔ دریں اثناء فلسطین نے بحرین کے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے اعلان کی مذمت کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اپنے مندوب کو بلا لیا اور کہا ہے کہ یہ اقدام مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ سے غداری ہے۔ ترکی نے بھی بحرین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کو فلسطین کیلئے ایک اور دھچکہ قرار دیا ہے۔ انقرہ میں وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اس پیش رفت پر تشویش ظاہر کی گئی ترکی کے مطابق یہ فیصلہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان نے ایک اور عرب ملک بحرین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے اعلان پر کہا ہے کہ فلسطین اور مشرق وسطی کے امن عمل پر پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس معاملے پر پہلے والے بیان ہی تصور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں امن اور استحکام پاکستان کی اولین ترجیح ہے جبکہ فلسطین پر پاکستان کے اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ہم فلسطینیوں کے حق خود ارادیت سمیت تمام جائز حقوق کے مکمل ادراک کا عزم کرتے ہیں۔ ایک منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے لیے پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں سمیت بین الاقوامی قوانین کے ساتھ دو ریاستی حل کے حامی ہیں جبکہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور بین المقدس کے بطور دارالحکومت فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔