پی سی ٹی بی سکینڈل اورایسٹ انڈیا کمپنی کی باقیات!!! 

Sep 13, 2020

کامران نسیم بٹالوی

برطانیہ کے سابقہ وزیر اعظم ومشہور مصنف سر ونسٹن چرچل کی ایک کہاوت ہے’’ وہ قومیں جواپنا ماضی بھول جاتی ہیں، وہ اپنا مستقبل کھو دیتی ہیں۔‘‘اسی طرح سابقہ امریکی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ کی بھی ایک کہاوت ہے ’’ہم ماضی بنانے والے نہیں بلکہ ماضی ہمیں بناتا ہے‘‘ماضی کے حوالے سے سابقہ اور موجودہ سپر پاورز کے رہنمائوں کے اقوال سے ماضی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ماضی کے ثبت شدہ نشانات قوموں کے مستقبل کے راستوں کا تعین کرنے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیںدوسرے لفظوں میں ماضی کی اساس کو محفوظ کرنا اور بلا ردو بدل آنے والی نسلوں کو منتقل کرنا کسی بھی قوم کا کلی اثاثہ اور اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی طور پر وہ ممالک جو سرجیکل حملوں سے دشمن کو تسخیر کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ علم کا انتخاب کرتے ہوئے دشمن ملک کے نصاب تعلیم میں نقب لگانے کا چور راستہ اختیار کرتے ہیںاور ایسا ہی کچھ ان دنوںہمارے دشمن وطن پاکستان کے ساتھ کرنے میں مصروف و مشغول ہیں لیکن ہم ہیں کے معاملات کی سنگینی کے باوجود مست الست پڑے ہیں، وہ تو بھلا ہو ایک سپوت پاکستان فرض سناش بیورو کریٹ کا جس کی رگوں میں حب الوطنی کا خون دوڑ رہا ہے جو کہ قومی نظریاتی اساس اور مذہبی اقدار کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا ہے، نے اپنے عہدے کی پرواہ کئے بغیر ان نقب زنوں کا پردہ چاک کر ڈالا۔ 26جولائی کی خبر کے مطابق منیجنگ ڈائریکٹر پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (PCTB) رائے منظور ناصر نے 31پبلشرز کی نجی سکولوں میں پڑھائی جانیوالی 100 سے زیادہ کتابوں پر پابندی لگا تے ہوے PCTB ACT 2015 کے تحت تادیبی کارروائی کرنے کا اعلان کیا، یہ پڑھائی جانے والی کتب میںتاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان سے متعلق حقائق و واقعات اور شخصیات کے ناموں کو مسخ کرتے ہوئے توہین کی مر تکب ہو رہی تھیں اور ان 100 کتابوں کے 31 پبلیشرز میں سے زیادہ تر کتب برطانوی اشاعتی اداروں یونیورسٹی آکسفورڈ پریس اور کیمرج یو نیورسٹی پریس کی ہیں جن کا نصاب عالمگیری سطح پر اپنے معیار کی وجہ رائج ہے اور جو مختلف خطوں کے ممالک کے ثقافتی ،تاریخی اور جغرافیائی تقا ضوں اور ہم آنگی کے تحت کتابیں مرتب کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایلیٹ کلاس کے نامور تعلیمی ادارے اس نظریہ سے قطعہ نظر کہ ان مذکورہ اداروں کی کتب ہمارے دو قومی نظریہ کی اقدار کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کرتی ہیں کے نزدیک تعلیم کا معیار ان بدیسی کتب کو اپنے سکولوں میں لاگو کرنا اولین فرض ہے اور یہ بھیڑ چال ہمارے طبقاتی نظام تعلیم کے اشرافیہ کا خاصہ بن چکی ہے جس کے تحت ایلیٹ کلاس کی نئی نسل کے اذہان پر سے اپنے اجداد کے نقوش مٹانے والوں کو نادر موقع میسر آچکا ہے۔مجھے یہا ںپنجابی کی ایک کہاوت یاد آرہی ہے ’’جھولی وچ بہہ کے داڑھی پٹنا‘‘ یعنی گود میں بیٹھ کر داڑھی نوچتے ہوئے تکلیف پہنچانا بالکل اسی طرح یہ ولایتی اشاعتی ادارے پاکستان میں بیٹھ کر بڑی دیدہ دلیری سے نئی نسل کو انکی بنیادی تاریخ سے بھٹکا کر تبا ہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان کتابوں میں اتنے بڑے بڑے بلینڈرز مارگئے ہیں جو کہ منظر عام پر بھی آچکے ہیں کہ اگرکوئی بھی عام پاکستانی یا عام مسلمان ایسے الفاط اپنی زبان پر لاتا ہے تو یا تو اپنے ایمان سے جاتا ہے یا پھر حب پاکستان سے انکاری ہے تو اتنے وسیع پیمانے پر قومی نسل کو دینی اور قومی تاریخ کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کرتے ہوئے گمراہ کرنا اور دین کے بنیادی عقائد سے دو لے جانا ہر گزبلنڈر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا تھا اور تعلیم کے ارباب اختیار خواب غفلت میںغرق تھے پاکستان کے خلاف اس سنگین جرم کو موجودہ یا عصری طور پر سمجھنا یا جانچنا ٹھیک نہ ہوگا اگر دیکھا جائے تو اسکے تانے بانے قیام پاکستان سے قبل جا ملتے ہیں جب انگریز بہادر نے برصغیر کے وسائل پر قابض ہوتے ہوئے عوام کو اپنا محکوم بنایا تواپنے طرز معاشرت اور کاروبار رائج کرنے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی نام کا ادارہ بنا ڈالا جس کا مقصد ہر معاملہ میں ٹانگ اڑاتے ہوے تاج برطانیہ کے مفادات کا تحفظ تھا انہیں حالت و واقعات کے تحت برصغیر کے طول عرض میں بہت سے مشنری سکول قائم کئے گئے بظاہر تو ان سکولوں کا کام تعلیم پہنچانا تھا لیکن پس پردہ انگریزی سامراج کے عزائم کو پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے بالخصوص برصغیر کے مسلمان نو نہال کے اذہان کی آبیاری کرنا تھا۔یقینا کتب کی اشاعت کا موجودہ واقع ایسٹ نڈیا کمپنی کے پیرو کاروں کا ہی کارنامہ ہے جو پاکستان کے وسائل تو ہڑپ نہیں کر سکتے لیکن پاکستان کی نسل کو ہر طرح سے اپنی اقدار اور روایات سے دورلے جا کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ممنوعہ مواد کے حوالے سے کتب کی اشاعت کا سنگین مسئلہ اپنی جگہ لیکن اس سکینڈل کو بے نقاب کرنیوالے آفیسر کے ساتھ برتائو اس سے بھی بڑھ کر سنگین ہے اور پاکستانی حکمران اشرافیہ کے مائنڈ سیٹ کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے ۔

مزیدخبریں