افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کوششیں

Sep 13, 2021

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد پیدا ہونے والے صورتحال تمام ہمسایہ ممالک کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ جب تک افغانستان میں امن و امان قائم نہیں ہو جاتا اور نئی باقاعدہ حکومت اپنا کام شروع نہیں کردیتی تب تک ہمسایہ ممالک تشویش کا شکار رہیں گے۔ طالبان کی طرف سے عبوری حکومت کے اعلان کے بعد معاملات درست سمت میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے افغان حکومت کو بالعموم تمام بین الاقوامی برادری اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کا تعاون درکار ہوگا جس کے لیے خود طالبان بھی کوششیں کررہے ہیں اور پاکستان کی بھی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والے نئے سیاسی انتظام کو عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی تائید و حمایت حاصل ہو تاکہ معاملات جلد سدھار کی طرف آسکیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے بارہا یہ کہا جاچکا ہے کہ پُر امن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد ہے اور اس کے مقصد کے حصول کے لیے پاکستان ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔
اس وقت افغانستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں تشویش کا باعث بننے والی بات داعش اور ایسی ہی دیگر شدت پسند تنظیموں کا منظر عام پر آنا ہے۔ داعش کی خراسان شاخ کی طرف سے تو کارروائیاں بھی شروع ہوگئی ہیں اور ان کارروائیوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ اس صورتحال میں دنیا کی نظریں پاکستان پر ٹکی ہوئی ہیں کیونکہ افغانستان امن و استحکام کے لیے اگر کوئی ملک سب سے زیادہ اور اہم کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ پاکستان ہی ہے۔ اسی لیے افغانستان کے دیگر ہمسایہ اور کئی مغربی ممالک کے علاوہ عالمی ادارے بھی پاکستان کو اہمیت دے رہے ہیں اور اس سے تعاون کے لیے اپیل کررہے ہیں۔ بدھ کے روز افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان نے افغانستان کے چھے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کی۔ اس اجلاس میں چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ اور خصوصی ایلچیوں نے شرکت کی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان طالبان کے قبضے کے بعد کی صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ تعاون کی توقع رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں نئی افغان حکومت سے بھی تعاون کیا جائے گا اور افغانستان میں انسانی المیے اور معیشت کو تباہی سے بچانے کی کوشش کی جائے گی۔اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ ہمسایہ ممالک باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے مل کر کام کریں گے اور وزرائے خارجہ فورم کو ایک مستقل اور مؤثر حیثیت دی جائے گی۔ اس سلسلے کے آئندہ اجلاس کی میزبانی ایران کرے گا۔
افغانستان کی سکیورٹی صورتحال سے متعلق پاکستان نے ہفتے کے روز ایک اور اہم اجلاس کی میزبانی کی۔ اس اجلاس میں افغانستان کے آٹھ ہمسایہ ممالک کے انٹیلی جنس سربراہوں نے شرکت کی۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس کے میزبان انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تھے۔ اجلاس میں پاکستان سمیت چین، ایران، روس، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے انٹیلی جنس چیفس شریک ہوئے۔ اجلاس کے دوران افغانستان کی سکیورٹی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا گیا جبکہ خطے میں دیرپا امن و سلامتی کی صورتحال پربھی بات چیت کی گئی۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ریجنل انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کے درمیان یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے کوآرڈینیشن کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی کی جائے گی۔ اجلاس میں غیر ضروری بھارتی سرگرمیوں پر پاکستانی تحفظات پر بھی غور کیا گیا۔علاوہ ازیں، علاقائی سلامتی، دیرپا امن و استحکام کے قیام پر مشاورت کی گئی اور یکساں لائحہ عمل کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے یہ اجلاس اور کوششیں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کے خلوص کا اظہار ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان نے نہ صرف افغانستان کے اندر موجود گروپوں سے تعاون کیا بلکہ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کی بھی مدد کی۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ ایک طرف پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جدوجہد کررہا ہے تو دوسری جانب بھارت سر توڑ کوشش کررہا ہے کہ کسی بھی طرح افغانستان میں حالات کو مزید بگاڑ کی طرف لے جائے تاکہ اس بگاڑ کی آڑ میں وہ افغان سرزمین پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کرسکے۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو اس حوالے سے بھارت پر کڑی نظر رکھنی چاہیے تاکہ وہ افغانستان میں جلتی ہوئی آگ پر تیل ڈال کر معاملات کو مزید خراب نہ کرسکے۔ اس سلسلے میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں اگر حالات مزید خرابی کی طرف جاتے ہیں تو اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں ہوگا بلکہ اس کے منفی اثرات بہت دور دور تک دکھائی دیں گے۔

مزیدخبریں