افغانستان میں قیامِ امن کے تقاضے

افغانستان میں عبوری حکومت کے اعلان کے بعد خطے کے ممالک نے عبوری حکومت سے افغانستان میں ترقی کے لئے ہر ممکن تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ چین نے افغانستان کی ترقی کے لئے تین کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیاہے جبکہ پاکستان نے فوری طور پر خوراک اور ادویات بھجوانے کا اعلان کیا۔ جمعرات کے روز پاکستان کی جانب سے آٹا‘ گھی اور ادویات کی بھاری مقدار سی 130 طیارے کے ذریعے کابل پہنچا دی گئی جبکہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں تجارت کی سہولت دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ڈالر کی قلت کی شکار افغان عبوری حکومت کے لئے یہ ایک بڑی تجارتی سہولت ثابت ہوگی جس کے فوائد پاکستان کو بھی ہوں گے۔ تعاون پر مبنی یہ رویہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کی اخلاقی‘ علاقائی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ پاکستان خاص طور پر افغانستان میں انسانی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت حال ہماری علاقائی سلامتی کے لئے بھی سنگین خطرہ ہے۔ افغان عوام اور عبوری حکومت کے ساتھ یہ نئی شروعات ہیں۔ ان حالات میں سرد مہری کا رویہ ہمسایہ ممالک کو  اس نادر موقع سے محروم کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان عوام کو یقین دلایا جائے کہ پڑوسی ممالک افغانستان کے استحکام و پائیدار امن اور بطور قوم ان کی ترقی کے لئے انتہائی سنجیدہ ہیں۔ یہ اعتماد افغان عوام کے لئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بھرپور تعاون سے ہی ممکن ہے تاکہ مغربی امداد کا سلسلہ بند ہونے سے افغان عوام  اس لحاظ سے احساس محرومی کا شکار نہ ہوں کہ  امریکی انخلا کے بعد یہ عرصہ ان کے لئے سخت ابتلا کا ہے۔ یہ  احساس اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ افغانستان میں رائے عامہ کو برگشتہ کرنے کے لئے ان دنوں امن دشمن عناصر کی جانب سے بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں جن کے آگے بند باندھا جانا چاہئے۔
پراپیگنڈا کی ایک صورت تو ہم بھارتی میڈیا کی طرف سے حالیہ دنوں کے ا نتشار کو ہوا دینے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں جبکہ پراپیگنڈا کی ایک  اور قسم بھی ہے جسے  آگے بڑھانے میں بعض چوٹی کے مغربی ادارے کوشاں ہیں۔ افغان عوام کے احساسات اور جذبات کے ساتھ کھیلنے کی اس واردات سے بھی افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو محتاط رہنے اور اس پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ عوامی سطح پر مضبوط رابطے  قائم  کیے جائیں۔ ہماری حکومتوں اور افغانستان کی عبوری انتظامیہ کے تعلقات کی نوعیت واضح ہے مگر عوامی سطح پر بھی خیرسگالی کے جذبات کا وسیع تر اظہا ر ضروری ہے۔ افغانستان کے تمام  پڑوسی ممالک اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھلے دل سے  دست تعاون بڑھائیں۔ افغان معاملے پر پاکستان کی جانب سے پڑوسی ممالک کے ساتھ بات چیت کا حالیہ سلسلہ خوش آئند ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی میزبانی میں پہلے  چین‘ ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان کے خصوصی نمائندوں کا اجلاس ہوا‘  بعدازاں انہی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ورچوئل اجلاس بھی منعقد ہوا‘ جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا تھاکہ افغانستان کے بدلتے حالات ایک کھلی حقیقت ہیں ان حالات کے ہمسایہ ممالک پر گہرے  اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اس بار افغانستان میں ہونے والی تبدیلی کسی خون خرابے اور مہاجرین کے سیلاب کے بغیر ہوئی ہے مگر مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا‘  اب بھی صورت حال پیچیدہ اور غیرتسلی بخش ہے‘ اس لیے ہماری توجہ کا  محور افغانستان میں ترقی کے ساتھ ساتھ قیام امن ہونا چاہیے کیونکہ افغانستان کے استحکام کا ہمسایہ ممالک کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ افغانستان میں حالیہ سیاسی تبدیلی کے دوران کسی بھی ہمسایہ  ملک کی طرف سے مداخلت نہیں کی گئی۔  ماضی میں ایسی غلطیوں کے نتائج انتہائی بھیانک صورت میں سامنے آئے جس کے نتیجے میں  ایک طویل مدت تک افغانستان اور یہ خطہ مسائل کے بھنور سے نہیں نکل سکا۔
نئے حالات نے جو امکانات پیدا کیے ہیں‘ ان میں سبھی ممالک کو احساس کرنا چاہیے کہ اپنی پسند ناپسند کے بجائے افغان عوام کے فیصلوں کا احترام کریں اور خود کو نئے افغانستان کے پْرعزم اور مخلص علاقائی شراکت دار کے طور پر سامنے لائیں۔ جتنا افغانستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت سے دور رکھنا ضروری ہے اتنا ہی یہ بھی کہ تجارتی‘ اقتصادی اور انسانی فلاح و بہبود کے شعبوں میں افغانستان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ تعاون کا مقصد محض یہ ہونا چاہیے کہ اس پسماندہ ملک کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے۔ علاقائی ممالک کی ذمہ داری اس لیے بھی زیادہ ہے کہ عدم استحکام کا شکار افغانستان عالمی اور علاقائی دہشت گردی کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے مغربی حکومتوں اور عالمی عسکری ماہرین کے تجزیے اور تبصرے چونکا دینے والے ہیں۔ افغانستان میں پہلے ہی ایک بے مقصد جنگ دوعشروں تک  جاری رہی جس کے خطے کے ممالک پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے‘ مستقبل میں عدم انتشار کی اس کہانی کو دہرائے جانے سے روکنا ہوگا۔ اس کام کی ابتدا افغانستان کی مستحکم معیشت اور خوش حالی کی جانب مخلصانہ انداز میں قدم بڑھانے  سے ہی ممکن ہے۔ علاقائی ممالک کو اس جامع مقصد کے لئے پْرعزم ہو کر کام کرنا ہوگا۔ افغان عبوری حکومت کو اس سلسلے میں بہرطور اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کا جغرافیہ اور معدنی وسائل کی وقعت اتنی ہے کہ ان پر انحصار کرکے افغانستان ایک مضبوط اور مستحکم معاشی طاقت بن سکتا ہے مگر اس کام کے لئے افغانستان میں مستقل امن چاہیے اور  قیام امن کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے  میں اس قدر بھرپور خوش حالی ہو تاکہ افغان عوام  کے مفادات اور ترجیحات بلند ہوں۔ سماجی امن اور دنیا کے ساتھ مل کر چلنا افغانستان کے لیے ناگزیر ہے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر طالبان کو توجہ دینا ہوگی اور عالمی برادری کو افغانستان کا مستقبل تابناک بنانے کے لئے ان کی ہر ممکن مدد کرنا ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران امن دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیاں جاری رہ سکتی ہیں ‘ لیکن ان ریشہ دوانیوں کو خلوص نیت اور عزم صمیم سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن