الوداع مجاہدلاثانی!

بابائے حریت، جدوجہد آزادی کشمیر کے سرخیل مجاہد لاثانی سید علی گیلانی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے، وہ کشمیر پر غاصبانہ بھارتی قبضے کے خلاف برس ہا برس پہ جاری تحریک آزادی کی سب سے بڑی علامت اور توانا آواز تھے۔ سید علی گیلانی 29 ستمبر1929ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈہ پورہ میں واقعہ وولرجھیل کے کنارے آباد گائوں رفتہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم بانڈی پورہ سے ہی حاصل کی اور بعدازاں اورینٹل کالج لاہور سے گریجویشن مکمل کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد سکول ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیارکرلی۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1960ء کی دہائی میں نیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کیا مگر بہت جلد اس کے نظریے سے اختلاف کرتے نیشنل کانفرنس سے فارغ ہوگئے، اورجماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور بقیہ زندگی کا بیشتر حصہ اسی جماعت سے وابستہ رہے،1972ء سے لے کر1990ء کے دوران تین مرتبہ سوپور سے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور کبھی بھی ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کیا،1990ء کے بعد جب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہدنے زور پکڑا اور ہندوستان کی انتقامی کارروائیوںمیں بھی اضافہ ہوا تو جناب سید علی گیلانی نے اپنی جدوجہد سے لوگوں کی آواز کو بھرپور طریقے سے ہرفورم پر بلندکیا اور ہندوستان کے نظام کے اندر ہرقسم کی پارلیمانی سیاست کوخیرباد کہہ دیا، مرحوم سید علی گیلانی آخری دم تک ایک سچے پاکستانی تھے اور ان کا یہ مشہور نعرہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے، ہرکشمیری کے دل کی آواز بن گیا، وہ ہمیشہ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے وکیل رہے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے بہت ضروری ہے۔
مرحوم سید علی گیلانی تمام عمر آزادی جموںوکشمیر کا پرچم تھامے رہے اور اس مرد درویش نے حریت کی ایک تابناک تاریخ رقم کی، وہ ایک عظیم مجاہد، پختہ نظریاتی وابستگی کا چراغ اور باعمل وباکردار صاحب بصیرت قائد تھے، زندان، جھوٹے مقدمات، جبر واستبداد کا کوئی ہتھکنڈا ان کے عزم صمیم کو متزلزل نہ کرسکا۔ انہوں نے امیرِ واعظ عمر فاروق، عبدالغنی بھٹ، اشرف صحرائی اور دوسرے سینئر کشمیری راہنمائوں کے ساتھ مل کر1993ء میں کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی تاکہ جدوجہد آزادی کشمیر کو باقاعدہ راہنمائی فراہم کی جاسکے، گزشتہ تین دہائیوں سے وہ اس فورم سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھرپور راہنمائی فراہم کرتے رہے، اور چار مرتبہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ بھی رہے، اپنی عملی جدوجہد کے دوران سید علی گیلانی نے دس سال سے زیادہ کا عرصہ قیدوبند میں گزارا جبکہ گزشتہ گیارہ سال سے وہ اپنے گھرمیں نظر بند تھے، انہوں نے گیارہ سے زیادہ کتب لکھیں جن میں سے ایک مشہور کتاب’رودادِ قفس‘1993ء میں شائع ہوئی پھر ان کے گھر کو بھی قفس بنادیاگیا ان کی وفات بھی قفس میں ہوئی اور جنازہ بھی قفس میں کیونکہ ہندوستان کی قابض حکومت ان کے جنازے سے بھی خوفزدہ تھی ایک موقع پر سیدعلی گیلانی نے یہ کہہ کر ہندوستان پاسپورٹ لینے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے آپ کو ہندوستان کا شہری نہیںمانتے لہٰذا وہ ہندوستان کے پاسپورٹ پر بھی نہیں کرسکتے، سیدعلی گیلانی کا ہمیشہ سے یہ ٹھوس اور اٹل موقف تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے اورکشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے۔
سیدعلی گیلانی بلاشبہ تحریک آزادی کشمیر کے سب سے بڑے راہنما اور پوری ملت اسلامیہ کے ایک عظیم لیڈر تھے انہوں نے وادی کشمیر کے مقتل میں قابض بھارتی فوج کی سنگنیوں کے سائے میں چھ دہائیوں تک جرأت بہادری اور عزم واستقلال کے ساتھ تحریک آزادی کشمیر کا جھنڈا اورپاکستان کا سبز ہلالی پرچم سربلند رکھا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ڈھونڈواگر ملکوں ملکوںملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
وہ عزم وہمت کا کوہ ہمالیہ تھے آج ہندوستان کی قابض حکومت اور فوج ان کی لاش سے بھی اس قدر خوفزدہ ہے کہ ان کے نماز جنازہ کو بھی صرف گھر کے چند افراد تک محدود کردیاگیا مگر وہ مرد قلندر اپنی قوم میں ایک ایسا ولولہ پیدا کرگیاہے ختم کرنا اب کسی کیلئے ممکن نہیں، وہ اپنی زندگی میں تو اپنی قوم کو ہندوستان کے چنگل سے آزادکروانے پاکستان کا حصہ نہ بناسکے مگر ان کا روشن کیا ہوا چراغ کبھی بجھ نہیں سکے گا، ان کی رحلت نے ہر پاکستانی کو غمزدہ کردیاہے وہ کشمیریوں کے عزم حریت کا استعارہ تھے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...