حکومت کاغیرارادی طور پرسگریٹ کی غیرقانونی تجارت کو فروغ : سابق چیئرمین ایف بی آر

سگریٹ پر ٹیکسوں کی بلند شرح ،سستے غیرقانونی سگریٹ کی فروخت سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان:ماہرین
لاہور(کامرس رپورٹر) حکومت غیرارادی طور پر سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کو فروغ دے رہی ہے۔سگریٹ کی دستاویزی صنعت کافی عرصہ سے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ سگریٹ پر ٹیکسوں کی بلند شرح سستے اور غیرقانونی سگریٹ کی فروخت میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے جس سے قومی خزانے کو بھی اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کے ہر اقدام کے ساتھ ہی سگریٹ نوشی کے عادی افراد کی بڑی تعداد سستے اور غیرقانونی سگریٹ پر منتقلی ہوجاتی ہے۔ حکومت کی سگریٹ پر ٹیکس عائد کرکے ریونیو بڑھانے کی پالیسی عوام کی صحت عامہ کے تحفظ کیلئے سگریٹ کو مہنگا کرکے عوام کی پہنچ سے دور کرنے کے مقصد سے متصادم ہے اور ہیلتھ پالیسی کی ناکامی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں غیرقانونی طور پر ٹیکس چوری کرکے حکومت کی مقررہ قیمت سے کم پر فروخت ہونے والی سگریٹ کی فروخت کا مارکیٹ شیئر 40فیصد ہے جس سے قومی خزانے کو سالانہ 80ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان میں سگریٹ کی سالانہ فروخت کئی سال سے 80ارب سگریٹ اسٹکس کے آس پاس رہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس عائد کرکے اسے مہنگا بناکر سگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی کی پالیسی غیرقانونی سگریٹ فروخت کرنے والی کمپنیوں کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہے۔ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی یہ بات ریکارڈ پر لاچکے ہیں کہ سگریٹ پر ٹیکسوں کی بلند شرح غیرقانونی تجارت کے فروغ کی اہم وجہ ہے۔ شبرزیدی کے مطابق پاکستان میں غیرقانونی تجارت سے ہونے والے معاشی نقصانات میں سگریٹ سرفہرست آئٹمز میں سے ایک ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں سگریٹ کی فروخت سے 150ارب روپے کے ٹیکس وصول کیے گئے جبکہ رواں سال کا ہدف 200 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ سگریٹ پر ٹیکس کی شرح بڑھنے سے قانونی فروخت میں کمی کا امکان ہے اور بڑے پیمانے پر مزید صارفین قانونی سگریٹ مہنگے ہونے سے غیرقانونی سستے برانڈز کی جانب منتقل ہوسکتے ہیں۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان میں کاروبار کرنے والی 50کمپنیوں میں سے قانونی طور پر کاروبار کرنے والی دو کمپنیاں سگریٹ سے حاصل ہونے والے مجموعی محصولات میں 98فیصد کا حصہ رکھتی ہیں۔
 جبکہ دیگر 48کمپنیاں مل کر صرف 2فیصد محصولات ادا کررہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایف بی آر نے سگریٹ کی غیرقانونی فروخت کی روک تھام اور ٹیکس چوری کے تدارک کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ کیا ہے تاہم اس سسٹم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دیگر قوانین کا  بھی سختی سے پوری انڈسٹری پر یکساں اطلاق کیا جائے۔ آزاد جموں و کشمیر اور خیبرپختون خوا میں قائم سگریٹ بنانے والے یونٹس ملک بھر میں حکومت کے مقررہ نرخ سے کہیں کم پر سگریٹ فروخت کررہے ہیں قیمت کا غیرمعمولی فرق صرف اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ حکومتی محصولات اور ٹیکس چوری کرکے سگریٹ فروخت کی جائے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...