اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کا ہر تناظر میں تحفظ کرنے کے لیے پرعزم ہے، سپریم کورٹ افواج پاکستان، الیکشن کمیشن، وفاقی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں سمیت ماتحت و اعلیٰ عدلیہ، آڈیٹر جنرل اور سروسز آف پاکستان کا تحفظ یقینی بنانیکے لیے پرعزم ہے، اگر آئین یا اسکے آئینی اداروں کو نیچا دکھایا گیا یا ان کی خلاف ورزی یا ان پر حملہ کیا گیا تو یہ عدالت اداروں کے آئینی تحفظ کے لیے ذرا ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوگی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردِعمل دیا، سیاسی جماعتوں کے سخت ردِ عمل کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا گیا، اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار بھی جانبدارانہ رہا،۔ گزشتہ روز نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مارچ 2022ء سے ہونے والے سیاسی ایونٹس کی وجہ سے سیاسی مقدمات عدالتوں میں آئے، سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کا فیصلہ 3 دن میں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ پر ججز کی مشاورت سے از خود نوٹس لیا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف 5 دن سماعت کر کے رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا، چارج سنبھالتے ہوئے سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کا چیلنج درپیش تھا، زیرِ التواء مقدمات اور ازخود نوٹس کے اختیارات کا استعمال جیسے چیلنجز درپیش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 54 ہزار 134 سے کم ہو کر 50 ہزار 265 ہو گئی، صرف جون سے ستمبر تک 6 ہزار 458 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا، زیرِ التوا مقدمات کی تعداد میں کمی نے 10 سال کے اضافے کے رجحان کو ختم کیا، معزز جج صاحبان نے اپنی چھٹیوں کو قربان کیا، آئندہ 6 ماہ میں مقدمات کی تعداد 45 ہزار تک لے آئیں گے، فراہمی انصاف کے متبادل نظام سے یقین ہے کہ زیرِ التواء مقدمات میں 45 فیصد تک کمی ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججز کی تقرریوں کے سلسلے میں بار کی معاونت درکار ہے، آبادی میں اضافے سے متعلق کیس کو جلد سنا جائے گا، آبادی میں اضافے سے وسائل پر بوجھ پڑتا ہے، پالیسی معاملات میں عمومی طور پر مداخلت نہیں کرتے، تاہم لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ایسے مقدمات بھی سننے پڑتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آگاہ ہیں کہ ملک کو سنجیدہ معاشی بحران کا سامنا ہے، ملک میں اس وقت بدترین سیلاب کا بھی سامنا ہے، متاثرینِ سیلاب کے لیے ججز نے 3 دن کی جبکہ دیگر عدالتی ملازمین نے 2 دن کی تنخواہ عطیہ کی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہوا، اس مقدمے میں وفاق نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جوقانون کے مطابق نہیں تھی، اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار بھی جانبدارانہ رہا، اس مقدمے کے فیصلے کا ردِ عمل ججز کی تقرری کے لیے منعقدہ اجلاس میں سامنے آیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں 5 اہم اور قابل ججز کو نامزد کیا گیا تھا، نامزدگی کے حق میں 6 کے مقابلے میں 4 ووٹ آئے۔ چیف جسٹس عمر عطائ بندیال نے یہ بھی کہا کہ وفاق نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے مقدمے پر ردِ عمل جوڈیشل کمیشن میں دیا، کیا یہ ردِ عمل عدلیہ کے احترام کے زمرے میں آتا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئین کا ہر تناظر میں تحفظ کرنے کے لیے پرعزم ہے، سپریم کورٹ عدلیہ، افواج پاکستان، اور الیکشن کمیشن کا بھرپور آئینی تحفظ کرنے میں پرعزم ہے، پارلیمان وفاقی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں، ماتحت، اعلیٰ عدلیہ، آڈیٹر جنرل اور سروسز آف پاکستان کا بھی تحفظ یقینی بنایا جائے گا، اگر آئین یا اسکے آئینی اداروں کو نیچا دکھایا گیا یا ان کی خلاف ورزی یا ان پر حملہ کیا گیا تو یہ عدالت اداروں کے آئینی تحفظ کے لیے ذرا ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوگی، سپریم کورٹ ملک میں جاری حالیہ سیاسی چیلینجز اور معاشی حالات کی سنگینی سے بھی آگاہ ہے،فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا ہے کہ سیلابی صورتحال کے تناظر میں تمام سیاسی جماعتیں، ان کے قائدین، فیصلہ ساز، مراعات یافتہ طبقہ اپنے اختلافات ایک طرف کرکے متحد ہو، وقت آ گیا ہے کہ ذاتی ایجنڈوں کو بالائے طاق رکھ کر قوم کی بہتری کے لیے کام کیا جائے،سپریم کورٹ آئین اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کام جاری رکھے گی، پاکستان کے قیام کے پچھتر سال پورے ہونے پر لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری تجویز ہے کہ عدالت عظمی صرف ان مقدمات کو پزیرائی دے جس میں کوئی ٹھوس قانونی سوال ہو، عدلیہ کی آزادی کیلئے کی بار کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ججز کی تقرریوں کا طریقہ کار طے ہونا باقی ہے، تقرریوں کے طریقہ کار میں اتفاق رائے ہونا چاہیے،صحافیوں کی ہراسمنٹ اور سیاسی گرفتاریوں کیخلاف آگے بڑھنا ھو گا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل حفیظ چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک کی وکلاء برادری وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور آئینی بحران کی صورت میں سپریم کورٹ کے وضاحت طلب فیصلے کو بہترین سمجھتی ہے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہیے، عدالتوں میں ججز کی بروقت تعیناتی اور تعداد پوری نہ ہونا انصاف کی راہ میں بڑی روکاٹ ہے، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چوھدری احسن بھون نے اپنے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس کے اقدامات اورگرمیوں کی تعطیلات کے باوجود سپرہم کورٹ میں مقدمات کی سماعتوں سے زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی آئی، اس وقت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 12 ہے،5 ججز کی تعیناتیاں نہ ہونے سے انصاف کی فراہمی کا عمل سست ہوا ہے، چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ مشاورت کیساتھ تعیناتیوں کا میعار نوٹیفائی کیا جائے،آئین اور جمہوریت کیخلاف سازشوں سے ملک میں بے جا انتشار ہوا ہے، اقتدار کی ہوس میں اعلی عدلیہ کے ضبط کو بار بار آزمایا گیا، عدلیہ اور ججز اور انکی فیملی کی سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مذمت کرتے ہیں، عدلیہ کیخلاف کسی قسم کی توہین آمیز گفتگو ناقابل برداشت ہے، عدلیہ کی کردار کشی کا نوٹس لیا جائے،آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ آئین کے منافی ہے،آرٹیکل 63 اے اور آرٹیکل 61/1ایف کے فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی دائر کردی نظر ثانی درخواستوں پر پر فل کورٹ تشکیل دیکر سماعت کی جائے، آرٹیکل 183 تین کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کیلئے قانون سازی کی جائے،انہوں نے نئے عدالتی سال پر عدلیہ اور ججز کیلئے نیک تمناوں کا اظہار بھی کیا۔فل کورٹ ریفرنس میں لائ آفیسرز، سپریم کورٹ کے سینئر وکلائ اور عدالتی عملہ نے شرکت کی۔