جماعت اسلامی کا ڈکیتیوں اور انسانی جانوں کے ضیاع کےخلاف کل مظاہرے کریگی

Sep 13, 2022


کراچی ( نیوز رپورٹر)امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ جماعت اسلامی 
شہر میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال ، بڑھتی ہوئی مسلح ڈکیتوں اور ان میں شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے کے خلاف بدھ 14ستمبر کو شہر میں 11مقامات پر احتجاجی مظاہرے کرے گی ۔کراچی کے عوام کو ہر گز تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہر اس جگہ احتجا ج کریں گے جہاں متعلقہ ذمہ داران ہو تے ہیں ، احتجاج عوام کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ ہے کہ کراچی میں فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیںکیونکہ یہاں انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ سندھ حکومت تو کراچی میں موجود سیلاب زدگان کے لیے بھی عملاً کچھ نہیں کر رہی اور الخدمت و دیگر این جی اوز ان کے لیے کھانے پینے کی اشیاءاور دیگر ضروریات زندگی فراہم کر رہی ہیں ۔اگر کراچی کی موجودہ ابتر صورتحال میں بھی یہاں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے تو ہم سمجھیں گے کہ چیف الیکشن کمشنر بھی سندھ حکومت کے ساتھ ملے ہو ئے ہیں ، کیونکہ جب صوبائی الیکشن کمشنر سندھ حکومت ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مرضی کی رپورٹ پیش کرتا ہے تو چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری ہے وہ اسے چیک کریں ۔ان خیالات کا اظہار انہو ں نے پیر کے روز ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر نائب امیر کراچی راجہ عارف سلطان ، ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات صہیب احمد بھی موجود تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ پولیس اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مجرموں اور جرائم پیشہ عناصر کو پکڑا جائے خواہ ان کا تعلق کسی بھی علاقے یا کسی بھی زبان سے ہو ۔ مجرموں کے خلاف بلا امتیاز ایکشن لیا جائے ۔ کراچی میں مقامی پولیس کا نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس پر بات کی جاتی ہے تو اسے لسانیت کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ،جماعت اسلامی نے کبھی لسانیت کی بنیاد پر سیاست نہیں کی ہے بلکہ اس کے خلاف بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ جماعت اسلامی ہر زبان بولنے والے کی جماعت ہے ، کراچی کے مقامی اور مستند ڈومیسائل رکھنے والے ہر زبان کے فرد کو پولیس میں بھرتی کیا جائے ، جب تک مقامی پولیس نہیں ہو گی تو امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی ۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور پولیس بھی بلدیاتی اداروں کے ماتحت ہو تی ہے لیکن ہمارے حکمران مغرب کے نظام کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن وہاں کی طرح بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیتے ۔انہو ں نے کہا کہ لوگوں کے گھروں میں چوریاں اور ڈکیتیا ں ہوتی ہیں تو وہ ایف آئی آر بھی نہیں درج کراپاتے کیونکہ پولیس کی جانب سے ان کو تنگ کیا جا تاہے اور خود ان کو مشکوک بنا دیا جاتا ہے ۔ ہماری پبلک ایڈ کمیٹی کے ذمہ داران کی طرف سے ایسے کئی شکایات سامنے آئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پولیس کا کام محکمہ نہ صرف چوروں ، ڈاکوﺅں کو پکڑنے میں ناکام ہے بلکہ ان کی سرپرستی کرتا ہے اور لوگ پولیس سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں ۔ ان حالات کی وجہ سے شہری شدید ذہنی و نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہو رہے ہیں ۔کسی علاقے میں چوریاں ، ڈکیتیاں ہو رہی ہیں اور منشیات کا اڈہ چل رہا ہے تو سب جانتے ہیں کہ یہ کام تھانے کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔پولیس کی نفری آخر کسی کام پر لگی ہوئی ہے عوام کو بتایا جائے کہ کتنی پولیس ، وزراءاور ان کی فیملی کے پروٹوکول میں لگی ہوئی ہے ۔پیپلز پارٹی 14سال سے مسلسل اقتدار میں ہے ایم کیو ایم اس کے ساتھ شریک رہی ہے بدقسمتی سے ان سمیت تمام حکمران پارٹیوں نے عوام کو چوروں اور ڈاکوﺅں سے نجات دلانے کے بجائے ان کا شکار بنایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ شہر میں بڑی تعداد میں رینجرز بھی موجود ہے ان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں اسٹریٹ کرائمز روکنے کے اختیارات نہیں ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ جب کوئی ڈاکو کسی شہری کو گولی مارتا ہے تو یہ عمل کس ایکٹ کے تحت آتا ہے ، دہشت گردی ، امن و امان خراب کرنے یا اسٹریٹ کرائمز کے ایکٹ میں ؟ اور ایسا کون سا طریقہ اور ایکٹ ہے کہ شہریوں کو اس سنگین صورتحال سے نجات دلوائی جا سکے ۔ اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے واضح بات سامنے آنی چاہیئے ۔انہوں نے کہا کہ ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا نیشنل ہائی وے کی حالت بہتر نہیں کی گئی اگر سندھ حکومت یہ کام کر لیتی کو کم از کم اندرون سندھ سیلاب زدگان کے لیے امدادی سامان کی ترسیل میں تو آسانی ہو جاتی ۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ سیلاب زدگان کو بے یارو مدد گار چھوڑا ہوا ہے ، ہم کہتے ہیں ان کو وڈیروں ، جاگیرداروں کی اوطاقوں اور محلات میں ، سرکاری گیٹس ہاﺅسز ، ریسٹ ہاﺅسز ، ڈی سی آفسز اور کنٹونمنٹ ایریاز میں کیوں نہیں رکھا گیا ۔سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج ہے ، الخدمت اپنے وسائل اور اہل خیر کے تعاون سے سرگرم عمل ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا ضروری ہے اور بد قسمتی سے حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ، اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جا رہا ہے لیکن کہاں خرچ ہو رہا ہے کچھ پتا نہیں ۔ اندرون سندھ کے عوام کو بھی حکومت سے اپنا حق لینے کے لیے اُٹھنا پڑے گا ۔ سندھ حکومت کی نا اہلی اور کرپش سے ہی بارشوں میں کراچی ڈوبا اور سیلاب میں سندھ ۔ ہم ہر قسم کی عصبیت اور لسانیت کو مسترد کرتے ہیں اور اہل کراچی کے ساتھ ساتھ اہل سندھ کے حقوق کے لیے بھی آواز اُٹھائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات اہل کراچی کی ضرورت ہیں ، ٹوٹی ہوئی سڑکیں ہیں ، پانی میسر نہیں ، ٹرانسپورٹ نہیں ہے تقریباً4کلو میٹر اورنج لائین میں 6سال لگا دیئے اورنگی ٹاﺅن کے لوگوں کو اس سے کیا فائدہ ہوا ہے ، یہ عوام کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے ، شہر میں صفائی ستھرائی ، سیوریج کا بُرا حال ہے ،یہ مسائل بلدیاتی نمائدے اور منتخب میئر ہی حل کر ائیں گے 
 حافظ نعیم الرحمن 

مزیدخبریں