ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں ملک 152 ویں نمبر پر ہے اور پاکستان کی تقریباً 51 فیصد آبادی بنیادی ضروریات صحت، تعلیم سے محروم ہے۔عوام کو شہری سہولتوں کی بلاامتیاز اور بلاتعطل فراہمی متعلقہ اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ شہریوں کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم ہو سکیں اور اس مقصد کیلئے عوامی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو اپنی کارکردگی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں ایسی لاتعداداین جی اوز ہیں جو دکھی انسانیت کی خدمت اور ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کر رہی ہیں۔فلاحی ادارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے یا حکومت عوامی فلاح و بہبود کے معاملات کو نظرانداز کرے تو یہ ادارے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ فلاحی تنظیمیں معاشرے کا حسن ہوتی ہیں۔
تاریخ کی اولین داستانوں سے لے کر موجودہ دور تک ایسے کئی ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنتے ہیں اور عوام الناس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرتے ہیں۔یہ ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی اپنی خدمات دیتے ہیں۔ چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان اداروں کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ فلاحی اداروں کا موجود ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں بھی بے شمار فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔ان اداروں کی تشکیل کے پیچھے کسی نا کسی شٰخص کا ایک خواب چھپا ہوتا ہے اور قیام کی وجہ بنتا ہے۔یہ ہے اصل انسانیت کا درس جو ہمیں ہمارے دین سے بھی ملتا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہی اصل کام ہے اور الحمد للہ ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے گمنام ہیروز ہیں جو بغیر کسی لالچ اور تمنا کے فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہیں جیسا کہ آج کل ملک میں سیلاب نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا ہے تیرہ سو کے قریب لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ ہزاروں گھر مسمار اور لاکھوں کو نقصان پہنچا ہے۔ مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں ۔ نقصان کو تخمینہ 30ارب سے زائد لگایا جا رہا ہے ۔ہر روز دل سوز کہانیاں اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں ، انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ایسے وقت میں حکومت اور فوج کے بعد ریلیف کے کاموں میں بے شمار این جی اوز اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش میں ہیں۔ویسے تو پورے ملک میں چھوٹی بڑی این جی اوز موجود ہیں جو کام کر رہی ہیں مگر کارکردگی کے لحاظ سے چند نام ہمارے سامنے نمایاں ہو کر آتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان نے چند دن قبل اپنے سوشل میڈیا کے پیغام میں جماعت اسلامی کی خدمت خلق کے حوالے سے قائم تنظیم ’’ الخدمت فاونڈیشن پاکستان‘‘ کے کاموں کو سراہتے ہوئے الخدمت کے اکاونٹس کی تفصیل مینشن کئے تھے تاکہ دنیا بھر سے لوگ زیادہ سے زیادہ سیلاب متاثرین کی مدد کر سکیں۔
الخدمت فاونڈیشن مشکل کی اس گھڑی میں جس انداز میں کام کر رہی ہے وہ بلاشبہ قابل تعریف ہے۔ سیلاب سے متاثرہ ہر ضلع میں اس کے رضا کار موجود ہیں اور دکھی لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش میں شب و روز کام کر رہے ہیں۔’’ امین بلڈ ڈونیشن سوسائٹی اینڈ ویلفیئر‘‘ ایسا ہی ایک ادارہ جو خدمت خلق اور بالخصوص مریضوں کو خون کی دستیابی کے حوالے سے حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت میں شب و روز کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کی روح رواں ڈاکٹر ماریہ امین ہیں یہ ایک نوجوان ڈاکٹر ہیں جنھوں نے اس این جی اوز کی بنیاد اس وقت رکھی جب 2010ء میں خون کی عدم دستیابی سے ان کے والد کی وفات ہوگی۔ امین بلڈ ڈونیشن سوسائٹی اینڈ ویلفیئر کے ساتھ ہزاروں نوجوان منسلک ہیں جو رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ اس این جی او نے اب تک ہزاروں مریضوں کی زندگی بچائی ہے۔
درحقیقت یہ این جی اوخون عطیہ کرنے کے حوالے سے لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کام کر رہی ہے۔ امین بلڈ ڈونیشن سوسائٹی اینڈ ویلفیئر اپنے ڈونرز کو باقاعدہ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ ایک بلاشبہ قابل تقلید امر ہے۔ سیلاب کے حوالے سے مختلف جگہوں پر امدادی کیمپس بھی لگا کر سیلاب زدگان کو ریلیف فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔اس این جی او کے ساتھ منسلک ہزاروں رضا کار اپنا قومی فریضہ سر انجام دے رہئے ہیں۔
ایدھی فاونڈیشن نے پورے ملک میں فلاحی کاموں کا جو دائرہ کار بنا رکھا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ سیلاب متاثرین میں بڑے پیمانے پر کام کیا جا رہا ہے ۔ خوراک ادویات خشک راشن کے ساتھ پکے پکائے کھانے کا اہتما م بھی کیا جا رہا ہے ۔مہناج ویلفیئر فاونڈیشن کی جانب سے بھی پورے ملک میں 200سے زائد امدادی کیمپس لگاکر دکھی انسانیت کا فریضہ سرانجام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انسانیت کی خدمت میں فلاحی اداروں کا کردار
Sep 13, 2022