وطن عزیز کی سیاسی فضا خصوصاً اعلیٰ عدالتوں میں آ ج کل بغاوت، غداری اور توہینِ عدالت جیسے حساس معاملات کا چرچا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے آئینی اداروں اور ان میں کلیدی مناصب پر براجمان اہم شخصیات سے متعلق نامناسب اظہارِ خیال ہی بغاوت اور غداری ہے یا پھر مملکت کے آئین کی دفعات پر عمل نہ کرنا بھی بغاوت اور غداری ہی کے زمرے میں آتا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ ملک کی عدالتوں کے ججوں کی شان میں گستاخی یا بدتمیزی ہی سے توہینِ عدالت سرزد ہوتی ہے یا ان عدالتوں کے سنائے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد سے انکار یا سست روی بھی توہینِ عدالت ہی کے مترادف ہے اور کسی فیصلے پر عمل درآمد سے انکار یا خلاف ورزی کے مرتکب حکمران، حکام اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان ہوں تب بھی یہ توہینِ عدالت ہی قرار پائے گی یا توہینِ عدالت کا قانون صرف عام لوگوں ہی کو سزا دینے کے لیے ہے؟
پاکستان ابھی قائم نہیں ہوا تھا، 23 مارچ 1940ء کی تاریخی قرار دادِ لاہور کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان کے ابھی ابتدائی ایام تھے جب 1941ء میں قائد اعظم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پہنچے اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا کانگریس کے کار پردازوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ’اے کانگریس والو !ہمیں اسلامی تاریخ کی روشنی میں اپنی روایات، اپنی ثقافت اور اپنی زبان اردو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو۔‘ پھر پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وجود میں آ گیا تو 21 مارچ 1948ء کو بانیِ پاکستان نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ ’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو… اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔‘ اس سے قبل مملکت خداداد کی پہلی دستور ساز اسمبلی متفقہ قرار داد منظور کر چکی تھی کہ ملک کی قومی و سرکاری زبان اردو ہو گی۔ پاکستان کے 1956ء اور 1962 ء کے دساتیر میں بھی اردو کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا جبکہ ملک میں اس وقت نافذ العمل 1973ء کے متفقہ دستور کی شق 251 میں بھی یہ طے کر دیا گیا کہ اردو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان ہو گی جب کہ ہر سطح پر انگریزی کی جگہ اردو کے نفاذ کے لیے 15 اگست 1988ء کی حتمی تاریخ کا تعین کر دیا گیا مگر آئین کی یہ شق آج تک عمل درآمد کی منتظر ہے۔ افسر شاہی اور حکمرانوں کی نا اہلی اور غیر ذمہ داری کے سبب آج بھی غلامی کے زندہ نشان کے طور پر انگریزی پاکستان کے ہر شعبہ پر مسلط ہے۔
قومی زبان اردو کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے میں حکمرانوں کی مسلسل غفلت اور نا اہلی کے پیش نظر محبانِ قوم و قومی زبان نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کیا چنانچہ معاملہ طویل عرصہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت رہنے کے بعد 8 ستمبر 2015ء کو اس وقت کے منصف اعلیٰ جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ دیا کہ تین ماہ کے اندر تمام سرکاری و نجی دفاتر میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلے کو بھی آج کئی برس بیت چکے مگر تاحال اردو کے سرکاری سطح پر نفاذ کی نوبت نہیں آ سکی۔ اس ضمن میں جب ایک بار پھر عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا تو موجودہ منصف اعلیٰ جسٹس عمر عطا بندیال، جو اس وقت قائم مقام منصف اعلیٰ کے طور پر فرائض ادا کر رہے تھے، کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے توہینِ عدالت کی اس درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ایک ماہ میں جواب طلب کیا۔ اس جواب طلبی کو بھی ایک سال گزر گیا مگر پھر کیا ہوا، وفاقی و صوبائی حکومتوں نے جواب داخل کیا یا نہیں، جواب دیا تو کیا موقف اختیار کیا اور نہیں دیا تو ایک ماہ کی بجائے اب ایک سال گزر جانے کے بعد جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال آج خود ملک کے منصف اعلیٰ ہیں تو ان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے اپنی حکم عدولی پر ذمہ داران کے خلاف کیا کارروائی کی؟ اس توہینِ عدالت پر کس کس کو کیا سزا سنائی گئی؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!
جان کی امان ملے اور اسے توہینِ عدالت یا کسی کی شان میں گستاخی تصور نہ کیا جائے تو ہم جناب منصف اعلیٰ جسٹس عمر عطا بندیال سے عرض کریں گے کہ وہ اس اہم قومی ذمہ داری کا احساس فرمائیں، وفاقی و صوبائی حکومتوں سے قومی زبان کے نفاذ سے متعلق ان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے جو جواب طلبی فرمائی تھی، اس ضمن میں درخواست کی سماعت پر نمایاں اور مثبت پیشرفت کو یقینی بنایا جائے اور اس سے بھی زیاد ہ اہم استدعا یہ ہے کہ ’اول خویش بعد درویش‘۔ بطور منصف اعلیٰ سب سے پہلے اس امر کی تحقیق و تفتیش کا اہتمام فرمائیں کہ ان کے اپنے ادارے اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کی صورتحال کیا ہے؟ ہماری معلومات کے مطابق خود عدلیہ کی کیفیت یہ ہے کہ ماتحت عدالتوں سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک کم و بیش تمام فیصلے تاحال انگریزی زبان میں جاری کیے جا رہے ہیں۔ یوں گویا خود عدلیہ ہی اپنے فیصلوں کی خلاف ورزی اور عدالت عظمیٰ کی توہین کی مرتکب ہو رہی ہے، ’چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا مانند مسلمانی‘۔ جب عدلیہ خود ہی اپنے فیصلوں پر عمل درآمد پر آمادہ نہ ہو تو دوسرے اداروں سے اس کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ انصاف میں تاخیر کو انصاف سے انکار کے مترادف قرار دیا جاتا ہے، وطنِ عزیز کی عدالتوں کا ریکارڈ اس ضمن میں یقینا اطمینان بخش نہیں جس کی دیگر بہت سی وجوہ کے علاوہ ایک اہم وجہ فیصلوں کا اردو کی بجائے انگریزی میں جاری کیا جانا بھی ہے۔ محض اس ایک وجہ سے عام آدمی عدالتوں کے فیصلے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ اگر اردو میں جاری ہونے لگیں تو ان کی تفہیم اور ان پر عمل درآمد بھی آسان ہو جائیگا۔ انگریزی زبان میں عدالتی کارروائی انصاف کے گراں ہونے کا سبب بھی ہے۔ بے پناہ فوائد کے باوجود عدالتی اور دیگر سرکاری امور میں اردو کے نفاذ میں تساہل آئین سے کھلی بغاوت اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی توہین نہیں تو پھر اور کیا ہے؟؟؟