پچھلے کئی سالوںسے یورپ کے کئی ممالک میں آناجانا رہا ہے، لیکن اِس آنے جانے کو میرا تفریحی یا علاج معالجے کا دورہ نہ سمجھا جائے یہ مجبوری کا دور ہ رہا ہے۔ کیونکہ میرا ایک ہی بیٹاہے پہلے وہ تعلیم کے لیے اور اَب ملازمت کی وجہ سے یہاں ہے ۔ مَیں نے یہاں جو کچھ دیکھا وہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں، حالانکہ مجھے یہ بھی علم ہے جو قصے مَیں آپ کو سناؤں گی وہ قصے الیکٹرک میڈیا نے بہت سے گھروں میں پہنچا دئیے ہیں لیکن آنکھوں دیکھے اور کانوں سُنے میں بہرحال کچھ نہ کچھ فرق تو ضرور ہوتا ہے مَیں کوشش کرتی رہتی ہوں کہ میرا کالم نصابی صورت اختیار نہ کرلے۔ ایک پیریڈ کھیل تماشے کا بھی ہو۔
آج کل مَیں ڈنمارک میں ہوں یہاں کی پاکستانی کمیونٹی ہر عید پر ایک تقریب ملاقات کا اہتمام کرتی ہے ۔ اس دفعہ مَیں بھی شریک ہوئی ۔ میرے ساتھ کی خالی کرسی پر ایک انتہائی سادہ اور دیہاتی خاتون آکر بیٹھ گئی۔اُس کے پہلو میں آئی ایک ڈینش لڑکی بھی اُس کے ساتھ بیٹھ گئی ، مَیں نے پوچھا یہ کون ہے؟
ذرا تیوری کے ساتھ بتایا میری بہو ہے ، میرا بیٹا یہاں ڈاکٹر ہے ، مَیں نے ذرا اپنانیت کے لہجے میں پوچھا یہ غیر ملکی ہے آپ کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے؟ اپنے ماتھے پر اُلٹا ہاتھ مارکر بیزاری سے کہا بہن جی یہ اتنی اچھی اور فرمانبردار ہے کہ مَیں بیمار ہوگئی ہوں ہم لڑنے بھڑنے کی رونق میں رہنے والے لوگ ہیں یہ تو یَس پلیز سے آگے ہی نہیں جاتی ۔ مجھے اِس اچھائی کا کیا فائدہ میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اَب تو اِسی گھٹن میں ہی رہنا ہے کیونکہ بیٹا واپس نہیں جانے دیتا۔
ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ خالق ِ کائنات نے کائنات میں انسان کی سزا اَور جزا کے لیے ایک جنت اَور دوزخ بنا رکھی ہے اَور وہ انسان کے اعمال کے مطابق اِن میں داخل کرے گا اِ ن دونوں ٹھکانوں کا نقشہ قرآنِ حکیم میں بتا دیا گیا ہے۔ خالق ِ کائنات کی کچھ مخلوق نے اپنی سوجھ بوجھ سے کرۂ اَرض پر بھی ایک جنت اَور دوزخ بنارکھی ہے لیکن چونکہ انسان ناقص العقل بھی ہے۔ اِن دونوں ٹھکانوں میں نقائص بھی ہیں۔ لیکن سوچتی ہوں انسان جب روحانی ارتقا میں تھا تو زیادہ طاقتور اَور صحیح تھا ،مثلاً جب حضرت سلیمان ؑ ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا چاہتے تھے تو ہوا کو اپنے حکم کے تابع رکھنے کی صلاحیت میں تھے ،ہوا اُن کے تخت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پہنچا دیتی تھی اَب جب انسان ذہنی ارتقا میں آیا ہے تو اپنے ٹول بکس کی وجہ سے بنائے گئے ٹریفک کو اپنی مرضی سے استعمال کرلینے کی اہلیت میں آگیا ہے روحانی اعمال معجزے تھے ذہنی اعمال کرشمے ہیں۔ انسان نے اپنے ذہنی ارتقا سے ایسے ایسے کرشمے رونما کردئیے ہیں کہ بعض پر یقین ہی نہیں آتا۔ایک ٹرین جب ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں مچھلی کی طرح ڈبکی لگا کر زمین جیسے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ہوجاتی ہے تو سمندر کے اندر خشکی پر کھڑے اپنے اردگرد زمینی اسٹیشن کی سہولیات دیکھ کر انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے ۔ خیر یہ تو لمبی کہانیاں ہیں مگر ایک کہانی آپ کو بہت لطف دے گی۔ میری ایک دوست نے مجھے پاکستان سے فون کیا کہ مَیں نے سُنا ہے وہاں یورپ میں ایک ایسا روبوٹ ملتا ہے۔ جوگھر کے سارے کاموں کے علاوہ ڈاکٹر اور نرس کا رول بھی ادا کرتا ہے معذور مریض کو اُٹھا نابٹھا ناٹائیلٹ لے جانا وقت پر دَوا دارو پلانا وغیرہ وغیرہ سب وہ روبوٹ کرتا ہے۔ میرے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور ٹانگ نکل گئی ہے میرے بچے دونوں ملک سے باہر سٹیل ہیں ملازم اول تو ملتے ہی نہیں اگرملیں بھی لمبی چھٹی مارتے ہیں، مَیں خود بیمارہوں شوہر کو اٹھانا بٹھانا سخت عذاب بنا ہوا ہے تم روبوٹ کی قیمت پوچھ کر مجھے فوراً بتاؤ کیونکہ قیمت تو یقینا بہت ہوگی۔
آئیے اَب یورپ کی جنت کی سیر کریں۔ پھلوں پھولوں اور خوشبوؤں سے مہکتا یہ ملک چمکتی دمکتی سڑکوں پر پھرتے حوریں اَور غلمان ۔ ہر طرف بکھری سہولیات اور آسانیاں جیسے ہر فرد کے منہ میں کھل جا سم سم کا ورد ہو۔ سچائی اَور ایمانداری ایسی کہ کلمہ گو سے دو ہاتھ آگے احساس برتری اُنہیں چُھو کر بھی نہیں گیا ، ایک دن ایک کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے ،ایک مسکراتی ہوئی عام سے انداز اور لباس میں ایک خاتون اندر داخل ہوئی کاؤنٹر کے ساتھ لگے آٹو میٹک سسٹم سے گتے کے گلاس میں کافی بھری کاؤنٹر پر بل ادا کیا اور باہر نکل گئی۔ اُس ایریا میں کوئی گاڑی نہیں آسکتی البتہ اُس خاتون کی گاڑی دروازے کے قریب آکر کھڑی ہوئی تومَیں نے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کون تھی کہنے لگا یہ ڈنمارک کی کوئین تھی فرق صرف اتنا تھا کہ گاڑی دروازے کے نزدیک آئی اور اُس میں ڈرائیور تھا ، جبکہ ڈرائیور کا رواج ہی نہیں، کوئی سیکورٹی کوئی پروٹوکول نہیں تھا۔ پاکستان میں ایک خبر چھپی تھی کہ پچھلے دنوں چیف منسٹر صاحب کے پروٹوکول پر تمام سڑکوں پر رُوٹ لگا ہواتھا ، تمام ٹریفک منجمد کر دی گئی ہسپتال جاتی ہوئی ایک غریب عورت کا رکشہ بھی روک دیا گیا اَور تھوڑی دیر بعد پروٹوکول کے احترام میں خاموش سڑک پر اُس خاتون کی دَرد ناک سسکیوں نے ہل چل مچادی اُس خاتون نے رکشے میں ہی اپنے بچے کو جنم دے دیا۔
آئیے اَب یورپ کی دوزخ کوبھی اندر سے دیکھ لیں ،عائلی زندگی میں یہ بالکل ناکام افراد ہیں ،لڑکا اور لڑکی بغیر کسی مذہبی یا قانونی بندھن کے ازدواجی تعلقات کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں اگر کبھی ناچاقی کا موقعہ آئے تو بچوں کو’’ یتیم خانوں ‘‘ میں بھیج کر خود الگ ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی جوڑے کی ازدواجی زندگی ٹھیک بھی گزرتی ہے تو وہ بھی 13 ،14 سال کی عمر میں بچوں کو خود تعلیم حاصل کرنے اور اپنا خرچہ پورا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکال دیتے ہیں پھرکوئی کسی سے تعلق نہیں رکھتا نہ بچے والدین سے محبت کرتے ہیں ،نہ اُن کا خیال رکھتے اَولڈ پیپلز ہوم میں دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ ایک اَولڈ پیپلز ہوم میں گئی وہاں رہنے والے مرد خواتین نے اتنی دردناک کہانیاں سنائیں کہ اپنے ملک کی روایات اَور تہذیب و تمدن جنت کے اسباب لگے۔کتوں سے اتنا پیارکرتے ہیں کہ اُن کے بیوٹی پارلر ہیں کتوں کی صفائی ستھرائی وہاں جس انداز سے ہوتی دیکھی اپنے ہسپتالوں میں مریضوں کو بھی یہ سہولیات مہیا نہیں ۔ دراصل یہ اپنے بچوں سے دُوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اُن کے لیے بظاہر یہ چھوٹی باتیں ہیں لیکن دراصل یہ وہ بڑی باتیں جن پر انسانی معاشرے کی مضبوط بنیاد استوار ہے۔ ایک ہی بلڈنگ میں بنے فلیٹس میں رہنے والوں کو کسی بھی قسم کے تعلق کو بے معنی سمجھا جاتا ہے، اگر کسی فرد کے ساتھ کوئی مصیبت ، پریشانی یا بیماری کا حادثہ ہوجائے تو ہمسایہ اُس کی خبر خود لینے کی بجائے سرکاری ایمرجنسی سروس کو کال کرکے اُسے رخصت کردیتا ہے ، کسی کا کسی سے کوئی بھی انسانی رشتہ نہیں ۔اگر چھٹی کے دن کسی ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو ہر فرد اپنا کھانا پانی خود ساتھ لاتا ہے اَور مَیں سوچ رہی ہوں ہمارے مذہب میں اخوت اور بھائی چارے کا جورشتہ موجود ہے شاید یہی اعلیٰ جذبات ہمیں ہمارے گناہوں کے باوجود دوزخ سے بچا کر جنت میں ڈال دیں اَور یہ لوگ اپنی نظریات کی وجہ سے جنت کے مستحق ہونے کے باوجود دوزخ میں ڈال دئیے جائیں۔